پروگرام کے مطابق امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغان امور زالمے خلیل زاد چند روز قبل اسلام آباد پہنچے اور وزیراعظم  پاکستان عمران خان سے انہوں نے ملاقات کی۔ گزشتہ بدھ کو مسٹر خلیل زاد نے ان سے ملاقات کی اور ان سے یہ اپیل کی کہ وہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں تعاون کریں تاکہ گزشتہ 17سال سے جنگ اور خون خرابے کا جو ماحول ہے، اسے ختم کیاجاسکے اور اس جنگ زدہ ملک میں امن واستحکام قائم ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے ان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ افغانستان میں سیاسی سطح پر امن اور مصالحت کی فضا قائم کرنے میں وہ اپنی طرف سے بھرپور تعاون کریں گے۔ دراصل اس سے پہلے امریکی صدر ڈونل ٹرمپ نے براہ راست وزیراعظم پاکستان  عمران خان کو خط لکھا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ امریکہ افغانستان میں سیاسی حل تلاش کرنے اور امن کے کاز کو تقویت دینے کی جو کوشش کررہا ہے، اس میں پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ مسٹر خلیل زاد گزشتہ منگل کو اسلام آباد  پہنچے اور اس سے ایک روز قبل عمران خان کو صدر ٹرمپ کا خط بھی مل چکا تھا۔ وزیراعظم کے دفتر سے جو بیان جاری ہوا اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ امن قائم کرنے کی کوششوں میں اور سیاسی سطح پر مصالحت کا ماحول قائم کرنے میں اس لئے تعاون کرنا چاہتا ہے کہ یہ بات خود اس کے بھی مفاد میں ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے زالمے خلیل زاد کا ستمبر سے لے کر اب تک یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ مہینوں  بعد امریکی اور پاکستانی قیادت کے لہجوں میں نسبتاً نرمی نظر آئی ہے۔ ورنہ اکثر ماحول کشیدہ رہتا تھا اور دونوں طرف سے تلخ وتند باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی صدر نے ایک بار پھر امریکی امداد روکنے کا اعلان کیاتھا اور یہ شکایت بھی کی تھی کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا اور امریکہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ جواب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے بھی جھلاہٹ کا اظہار ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئندہ پاکستان کبھی دوسرے ملک کے لئے کسی طرح کی لڑائی نہیں لڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دہشت گردی  سے لڑتے ہوئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں جس کا خاطرخواہ  اعترا ف نہیں کیا گیا۔  پاکستان نے بلاشبہ اندرون پاکستان دہشت گردی کے خلاف کئی آپریشن  کئے اور بہت سے پاکستانی فوجی اور سویلین دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ لیکن امریکہ اور پاکستان کے بعض پڑوسی ملکوں کی اصل شکایت یہ رہی ہے کہ پاکستان صرف ان دہشت گردوں سے لڑتا رہا ہے جو خود پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں اور پاکستان کی سیکوریٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ جن دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہیں سے وہ پڑوسی ملکوں میں حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ان کے خلاف پاکستان کوئی کارروائی نہیں کرتا بلکہ براہ راست  یا بالواسطہ ان کی مدد کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی شکایت یہ رہی ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں سے خاص لڑائی امریکہ کی رہی ہے اور یہ دونوں گروپ پاکستان میں بہت سرگرمی سے افغان میں حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں۔

بہرحال لمبے عرصے کے کشیدہ ماحول کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے لہجے میں تھوڑی سی نرمی پیدا کی ہے۔ انہوں نے عمران خان کو خط لکھ کر سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ان سے تعاون کی جو اپیل کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے نسبتاً اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکی نمائندے خلیل زاد بھی پاکستان کی بڑی شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بارہا یہ الزام بھی لگایا تھا کہ پاکستان افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس نے دہشت گردوں سے سازباز کررکھی ہے۔ لیکن بہرحال اب وہ صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے پاکستان آئے اور مصالحت کی کوششوں میں عمران خان سے تعاون کی اپیل کی۔ ان کی آمد سے عین قبل پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں خلیل زاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘شاید اس بار پاکستان آتے وقت آپ اپنی سابقہ پاکستان مخالف ذہنیت کو ساتھ نہیں لائیں گے۔ ’’ خلیل زاد کے جو بھی تحفظات رہے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ شورش پسندوں کو بات چیت کی میز پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ طالبان کا ایک وفد بھی اس وقت پاکستان میں خلیل زاد ، ان کی ٹیم اور پاکستانی حکام سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس بات کا انکشاف خود ایک طالبانی لیڈر نے کیا۔ اس انکشاف یا دعوے کی پاکستانی حکام کی طرف سے نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ تائید۔

بہت ممکن ہے کہ خلیل زاد کی پاکستان میں آمد اور عمران خان سے ہونے والی ان کی بات چیت ایک مثبت اور حوصلہ افزا پیش رفت ثابت ہو اور افغانستان میں حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں رائیگاں نہ جائیں۔ اگر افغانستان میں امن واستحکام قائم ہوتا ہے  تو نہ صرف افغان عوام، جو دہائیوں سے جنگ ، خوف اور قتل وغارت گری کے ماحول سے دو چار ہیں، چین کا سانس لیں گے بلکہ پاکستان سمیت علاقے کے تمام ملکوں کے لئے بھی یہ بات باعث اطمینان ہوگی۔