سری لنکائی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ غیرآئینی:سپریم کورٹ

سری لنکا میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔عدالت عظمی کی سات رکنی آئینی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے صدر میتری پالا سری سینا کے فیصلے کوپوری طرح غیر آئینی قرا ردیا ہے۔

سری لنکا کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں صدر میتری پالا سری سینا کو زبردست دھچکا لگا ہے وہیں یہ فیصلہ ان ملکوں اور رہنماوں کے لئے بھی ایک سبق ہے جو آئین اور قانون کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور انصاف کے تقاضو ں کو نظر انداز کرکے صرف اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہیں۔

سری لنکا کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عام حالات میں صدر، پارلیمان کو اس کے ساڑھے چار سال کی مدت مکمل ہونے سے پہلے تحلیل نہیں کرسکتے ۔اس لئے صدر کا پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور الیکشن کا اعلان کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سری سینا کے9 نومبر کے اس فیصلے کے خلاف دیا ہے جس میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے پانچ جنوری کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں 13 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔جس پر عدالت کا یہ فیصلہ آیا ہے۔
اس سے قبل بدھ کو 225 رکنی پارلیمنٹ میں صدر سری سینا کے ذریعہ معذول کردئے گئے وزیر اعظم رانل وکرم سنگھے نے 117 اراکین کی حمایت حاصل کرلی جو اکثریت کے لئے ضروری تعداد سے چار زیادہ ہے ۔ سری سینا نے 26اکتوبر کو وکرم سنگھے کو برخاست کرکے اپنے معتمداورسابق صدر مہندا راج پکشے کووزیر اعظم مقرر کردیا تھا۔ لیکن پارلیمنٹ نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی۔اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر سری سینا پر وکرم سنگھے کو وزیر اعظم کے عہدہ پر دوبارہ مقرر کرنے کا دباو بڑھ گیا ہے۔ اس سے پہلے صدر سری سینا نے کہا تھا کہ وہ ملک اور عوام کے حق میں فیصلہ کریں گے اور عدالت کے فیصلے کا احترام کریں گے۔


صدر سری سینا کے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے ہندوستان کا یہ پڑوسی ملک پچھلے ڈیڑ ھ ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے۔ سری لنکا کی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت دور رس اہمیت کا حامل ہے اور اس سے ایسے ممالک کو سبق لینا چاہئے جہاں حکمراں عدالتوں کو یرغمال بناکر ججوں سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرالیتے ہیں ۔ حالانکہ عدالتیں جمہوریت کی نگہبان ہوتی ہیں اور جمہوریت کو بحال رکھنے کے لئے آئینی اداروں کی آزادی اور غیر جانبداری کا احترام ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے ایک پڑوسی ملک میں یہ صورت حال عام ہے۔جہاں کی لڑکھڑاتی جمہوریت جب کبھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسے مفلوج کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی فوجی جرنیل میدان میں کود پڑتا ہے۔ اور وہ اپنے اس اقدام کو جائز قرار دینے کے لئے عدالت کا سہارا لیتاہے اور عدالتیں بھی اس کے دبا و میں آکر مجبوراً غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کی تاویل ‘ تشریح اور تائید کردیتی ہیں۔

پچھلے تقریباً ستر برسوں کے دوران دنیا نے ایسے واقعات کا بار بار مشاہدہ کیا ہے جب ہندوستان کے اس پڑوسی ملک میں سیاست کی بساط پر مہرے تو تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن بساط اور بازی ہمیشہ فوج کے ہاتھوں میں ہی رہی ۔ حالانکہ اس ملک کے آئینی اداروں اور بالخصوص عدلیہ نے فوجی جبر کے خلاف اپنی بساط بھر مزاحمت کرنے کی کوشش بھی کی تاہم بالآخر اسے سپر ڈال دینی پڑی ۔ا س کے ساتھ ساتھ زائد از ایک معاملات میں عدلیہ کا کردار متنازع دکھائی دیا۔

ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ جمہوریت کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے لیکن اس کی اصل تعریف یہ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرتی ہے اور اسے کرنا بھی چاہئے۔قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت بالکل اسی طرح ڈاکوؤں کا ایک عظیم جتھہ ہے جیسا کہ سینٹ آگسٹائن نے عدل کے بغیر سلطنت کے بارے میں کہا تھا۔قانون کی حکمرانی کو محفوظ بنانے سے جمہوریت محفوظ ہو تی ہے لیکن اگر قانون کی حکمرانی کو قربان کر دیاجائے تو جمہوریت کا حقیقی وجود باقی نہیں رہ پاتا ہے۔

سری لنکا کی عدالت عظمی نے جس جرأت مندی کے ساتھ قانون کی حکمرانی کو قائم رکھا ہے وہ ان تمام ملکوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے جہاں کی عدالتیں حکمرانوں کے آگے اپنا سرتسلیم خم کردیتی ہیں۔