احسان کے لئے نرم گوشہ کیوں؟

پاکستان میں پشاور کےآرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کی اتوار کے روزچوتھی برسی منائی گئی ۔یاد رہے کہ چار سال قبل پشاور آرمی پبلک اسکول پر تحریک طالبان پاکستان نے زبر دست حملہ کیا تھا جس میں بم اور بندوقوں کا بے تحاشہ استعمال ہوا تھا۔ یہ حملہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کیا گیا تھا جو کئی پاکستانی دہشت گرد گروپوں کی ایک تنظیم ہے۔در اصل یہ حملہ آپریشن ضرب عضب کا انتقام لینے کی غرض سے کیا گیا تھا جو فوج نے قبائلی علاقوں میں بطور خاص تحریک طالبان کے خلاف شروع کیا تھا۔ پشاور اسکول پر ہونے والے اس حملے کی درندگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں130 سے زیادہ اس اسکول کے معصوم بچے شامل تھے۔ پوری دنیا اس حملے سے لرز اٹھی تھی اور ہندوستان سمیت تقریباً تمام ملکوں نے شدید لفظوں میں مذمت کی تھی اور حکومت پاکستان اور مہلوکین کے لواحقین کے تئیں اظہار یکجہتی اور ہمدردی کیا تھا۔ اس وقت کچھ ایسا لگا تھا کہ پاکستان خاص طور سے وہاں کا فوجی اسٹبلشمنٹ دہشت گردوں کی سر گرمیوں پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائے گا اور دہشت گرد گروپوں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کئے بغیر موثر کارروائی کرے گا۔ کم از کم اسی قسم کا تاثر وہاں کی سویلین اور فوجی قیادت کی طرف سے دیا گیا تھا ۔ اسی دوران قومی ایکشن پلان بھی ترتیب دیا گیا تھا۔ آناً فاناً فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور ہر سطح پر یہی تاثر دیا جا رہا تھا کہ انتہا پسند تنظیموں سے لے کر مشتبہ مدرسوں تک سبھی پر سخت نظر رکھی جائے گی اور نفرت پھیلانے والے مبلغین اور مذہب کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرنے والے افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی ۔ فوجی عدالتوں سے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف کچھ کارروائیاں تو ہوئیں۔ بہتوں کو پھانسی بھی ہوئی لیکن ان کارروائیوں پر سوال بھی اٹھتے رہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے یہ پوچھا گیا کہ کیا سزا پانے والوں میں دہشت گرد تھے یا سیاسی مخالفین کو بھی دہشت گرد قرار دے کر سزا دی گئی ۔جہاں تک نفرت آمیز تقریر و تحریر پر قدغن لگانے یا پاکستان کی سر زمین سے پڑوسی ملکوں میں حملے کی سازش اور منصوبہ بندی کرنے والے گروپوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے جانے کا سوال ہے تو زمینی حقیقت میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ بد زبان قسم کے لیڈران پر قدغن لگانا تو کجا ان کی منہ بھرائی کی کوششیں کی جانے لگیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کو انتہا پسندوں کے دباؤ میں آ کر بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں کو ایک ہی دو دن کے اندر اقتصادی مشاورتی کونسل سے صرف اس لئے ہٹانا پڑا کہ وہ احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور احمدیوں کے تئیں انتہا پسندوں کے دل میں نفرت کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان کے لیڈر خادم حسین رضوی اور اس گروپ سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد نے آسیہ بی بی کو عدالت کی جانب سے بری کئے جانے کے فیصلے کے خلاف جو طوفان برپا کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور خود آسیہ بی بی کو قتل کرنے کی جو دھمکی دی اسے کسی بھی ملک کی حکومت یا مہذب معاشرہ بر داشت نہیں کر سکتا لیکن یہ سب کچھ پاکستان میں اب بھی نہ صرف برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ نفرت کی تبلیغ کرنے والوں سے سمجھوتے بازیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں جب پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے وحشیانہ حملے کی برسی مناتے وقت حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قدم اٹھا رہے ہیں تو بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور اس پر بجا طو ر پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ چنانچہ پشاور اسکول سانحہ کی برسی کے موقع پر عمران خان نے جب یہ کہا کہ اس حملے نے پوری پاکستانی قوم کو دہشت گردی کےخلاف متحد کر دیا اور یہ کہ وہ حملہ انسانیت پر حملہ کرنے کے مترادف تھا تو بجا طور پر بعض حلقوں نے یہ سوال اٹھایا کہ خادم حسین رضوی جیسے بد زبان اور نفرت کو فروغ دینے والے شخص کی بد گوئی اور لا قانونیت کو بڑھاوا دینے والے شخص کی سر گرمیوں کو برداشت کرنے والی حکومت یہ بات کیونکر کہہ سکتی ہے؟ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اورمجاہد آزادی خان عبد الغفار خان کے پوتے اسفندیار ولی خان نے ایک چبھتا ہوا سوال یہ اٹھایا ہے کہ حکومت کو ایسا کہنے کا کوئی اخلاقی حق حاصل نہیں ہے کیونکہ اس حملے کے ذمہ دار گروپ کے ترجمان کو سر کار کے معزز مہمان کے طور پر رکھا گیا ہے۔ در اصل یہ بات انہوں نے اس سیاق میں کہی کہ تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان احسان اللہ احسان اس وقت نفاذ قانون کے اداروں کی حراست میں ہے ۔ یاد رہے کہ احسان نے پشاور اسکول کے حملے کے کچھ عرصہ بعد سیکورٹی فورسز کے سامنے سرینڈر کیا تھا۔ اپریل 2017 سے ہی وہ حراست میں ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جاتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر واقعی پشاور اسکول کے حملہ آوروں کو قرار واقعی سزا ہوئی ہوتی تو اس کے بعد کوئی دہشت گردانہ واقعہ دوبارہ پیش نہ آتا۔ ان کے مطابق جب تک ایسے گروپوں کی پناہ گاہوں کو مسمار نہیں کیا جاتا ، پاکستان میں صحیح معنوں میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔