پاکستان پر فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی نگرانی

اس بات کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں کہ حکومت پاکستان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کرے گی جو پڑوسی ملکوں میں عوامی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان نے حال ہی میں ممبئی پر ہونے والے 2008کے دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے یہ اعتراف ضرور کیا تھا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا خود پاکستان کے حق اور مفاد میں ہوگا۔ لیکن اسے محض زبانی جمع خرچ ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ممبئی حملوں میں ملوث جن ملزموں کے خلاف پاکستان میں مقدمہ چل رہاہے وہ انجام تک پہنچے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے اور یہ کہنا تو اور مشکل ہے کہ کسی مجرم کو مجرم قرار دیا جائے گایا نہیں ۔ مقدمہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہاہے وہ پاک اسٹیبلشمنٹ کی عدم دلچسپی بلکہ لاپرواہی کی غمازی کرتا ہے۔ نو دس سال کا عرصہ گزر گیا۔ تواتر کے ساتھ کئی جج بدلے گئے دھمکیوں کی وجہ سے بعض وکلا اور ججوں نے خود ہی اس مقدمے سے اپنے آپ کو الگ کرنا غنیمت جانا۔ ان حملوں  کا خاص منصوبہ ساز ذکی الرحمنٰ لکھوی برسوں پہلے ضمانت پر رہا ہو چکا ہے ۔ دہشت گردوں کے تعلق سے پاکستان کا رویہ خود اس کی نیت کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ مثلاً دو ہزار سولہ سے اب تک جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی عائد کئے جانے کی اقوام متحدہ کی ہرکوشش کو پاکستان کے سدابہار دوست چین نے بلاک کرنے کی کوشش کی جس سے پاکستان نے اطمینان کا سانس لیا۔ بلکہ چین کے اس عمل سے پاکستانی حکام حوصلہ پاکر حافظ سعید جیسے لوگوں پر عائد بعض برائے نام پابندیوں کے تعلق سے بھی بے فکر ہوگئے اور وہ بڑی آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

صدر ٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی نصف تعداد کوواپس بلا نے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کےباعث نہ صرف طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں پر عالمی واچ ڈاگ کی نگرانی سخت ہوجائے گی بلکہ اس خطے میں سرگرم آئی ایس اور القاعدہ جیسے عالمی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعاون کرنےو الے گروپوں پر بھی سخت نظررکھی جائے گی۔ حالیہ  پیش رفت سے اندازہ ہواہے کہ دہشت گردوں کے فنڈ پر نظر رکھنے والے کثیر قومی ادارے فائنینشیل ایکشن ٹاسک فور س یعنی ایف اے ٹی ایف نے اپنے دائرہ کار میں وسعت پیدا کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کے تحت اب نہ صرف دہشت گردگروپوں کے فنڈ کی نگرانی کی جائے گی بلکہ ان ملکوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جائے گی جودہشت گرد گروپوں کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں ۔ گزشتہ اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کا جامع سیشن منعقدہوا تھا اس کے بعد پہلی بار اس ادارے نے اپنے ایک بیان میں واضح طورپر کہا ہے کہ اب و ہ ان ملکوں پر بھی نظر رکھے گا جو دہشت گردوں کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ اگر ایف اے ٹی ایف کا دائرہ کار واقعی وسیع ہونے والا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان بھی اس کی زد میں آسکتا ہے ۔ اس سال کے جون مہینہ میں ایف اے ٹی ایف نے ایک با ر پھر پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کیا ہے کیونکہ دہشت گرد گروپوں کے فنڈ پر نظر رکھنے اور ان کے مالی لین دین پر رکاوٹ ڈالنے میں پاکستان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ پاکستان کے کئی گروپ ایسے ہیں جو القاعدہ سے جڑے ہوئے ہیں اور مختلف آپریشن میں اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروپ بھی ہیں جن کا خاص نشانہ ہندوستان ہوتا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادایک ہزار 267 کی فہرست میں شامل ہیں۔

اکتوبر کے مہینے میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو اپنے27 نکاتی ایکشن پلان کا خاکہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ پندرہ مہینہ کے اندر اندر وہ اسے مکمل طورپر نافذ کردے گا۔ اس نے ایف اے ٹی ایف سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ بھرپو ر تعاون کرے گا اور دہشت گردوں کے فنڈ کی پوری نگرانی کرے گا۔ اگر چہ پاکستان کے پاس ابھی ایک سال سے کچھ زیادہ کا وقت ہے جس میں وہ اپنی کارکردگی کی تفصیل پیش کرے گا۔ لیکن اس سلسلے میں اس کی کارکردگی کا جائزہ ایشیا پیسفک گروپ کی میٹنگ میں لیا جائے گا جو جنوری میں ہوگی اور اس کے بعد فروری میں اس کے مکمل اجلاس  میں بھی اس پر تبادلہ خیال ہوگا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے معاشی بحران کے معاملہ میں آج کل خاصے فکر مند ہیں اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ توازن ادائیگی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے حالات کو سازگار بنایا جائے۔ ادھر عالمی مالیاتی فنڈ پر بھی دباؤ پڑ رہاہے کہ وہ پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج دینے سے قبل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی جانب سے دی جانے والی رقم چین کا قرضہ چکانے کے لئے نہ استعمال کی جائے ۔ پاکستان سے چین کی دوستی اور تعلقات اپنی جگہ لیکن بین الاقوامی تعلقات میں متوازن رویہ اختیار نہ کرنا کسی  بھی ملک کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی متعدد مصیبتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے عالمی برادری میں خود اپنی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایاہے۔ اپنے عمل سے اس نے نہ صرف پڑوسی ملکوں کو ناراض کیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی برگشتہ کیا ہے ۔ ایسے میں اگر اسے کوئی کثیر قومی ادارہ ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتے ہیں تو اسے فال نیک نہیں سمجھا جاسکتا۔پاکستانی قیادت کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے ۔