بریگزٹ معاہدے کی شکست اور مستقبل کے امکانات

برطانوی وزیر اعظم ٹیریزامے کے بریگزٹ معاہدے کی پارلیمنٹ میں 230 ووٹوں سے شکست کے بعد اس معاہدے کے مستقبل کی غیر یقینی صورت حال اور واضح ہوگئی۔ اس شکست کے ساتھ ہی لیبرپارٹی لیڈر جیریمی کوربن نے ایوان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی جس سے کنزرویٹیو حکومت کی پریشانیاں بڑھ گئیں۔ اس تحریک کی اسکاٹش نیشنل پارٹی گرین پارٹی اور پلیڈ سمرو سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نیز لبرل ڈیموکریٹس  نے حمایت کی۔ بریگزٹ کے بارے میں پارلیمنٹ میں ووٹنگ بنیادی طور پر پچھلے ماہ ہونے والی تھی لیکن وزیراعظم ٹیریزا مے نے اس میں تاخیر کی جس کی وجہ سے ووٹنگ اس ماہ ہوسکی۔ لیکن محترمہ مے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محترمہ مے بریگزٹ کے معاملے پر تو شکست کھاگئیں لیکن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام رہی۔ تحریک پر ووٹنگ میں ٹوری  کے باغی ممبروں اور ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے دس ارکان پارلیمنٹ نے ان کاساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ بڑے کم فرق سے اس محاذ پر جیت گئیں۔

اب سب سے بڑا سوال برطانیہ کے یوروپی یونین سے باہر ہونے کی تاریخ اور طریقۂ کار کے بارے میں ہے۔ محترمہ مے نے پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے بارے میں وسیع ترین رائے جاننے اور آگے کا راستہ طے کرنے کے لیے تمام پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کی پیش کش کی ہے۔شکست نے بعد وزیراعظم مے نے جو بیان دیا اس سے لگتا ہے کہ وہ یوروپی یونین سے ہرحال میں برطانیہ کو باہر دیکھنا چاہتی ہیں۔ ملک میں عام انتخابات کے امکانات بھی نہیں ہیں کیوں کہ ٹیریزامے نے استعفی دینے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا استعفی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اسی دوران لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ اب جب کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی ہے، وہ دوسرے ریفرنڈم کے امکانات پر غور کرے گی۔

ادھر یوروپی یونین کا کہنا ہے کہ یونین سےمنظم طور پر باہر ہونے کے لیے بریگزٹ معاہدہ ہی سب سے بہترین اور واحد طریقہ ہے۔ بریگزٹ سودے پر ہونے والی ووٹنگ کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد یوروپی یونین کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر  نے کہا کہ اب برطانیہ کے یونین سے غیر منظم طورپر باہر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ بریگزٹ معاہدے پر تاریخی شکست کے بعد برطانیہ کا یوروپی یونین سے منظم طور پر باہر ہونا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ لیبر پارٹی کے زیادہ تر ارکان چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر تازہ استصواب رائے حاصل کی جائے۔

اب ایسا ہوگا یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کسی معاہدے کے بغیر برطانیہ کو یوروپی یونین سے باہر نکلنا پڑا تو یہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اب جن بات کے قوی امکانات ہیں وہ یہ ہیں کہ یا تو گروپ سے باہر ہونے کی تاریخ یعنی 29 مارچ 2019 میں توسیع ہوگی یا پھر وزیراعظم مے گروپ سے بہتر سودا کرنے کی کوشش کریں گی۔ لیکن یہ دونوں باتیں ممکن نظر نہیں آتیں کیوں کہ جناب جنکر نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ یوروپی یونین اس بارے میں مزید بات چیت نہیں کرے گی۔ اس لیے اب برطانیہ کی پارلیمانی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مل جل کر برطانیہ کیلئےمستقبل کا کوئی متبادل راستہ تلاش کریں۔ اس غیریقینی صورت حال کے درمیان جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ بریگزٹ کے معاملے پر برطانیہ جو بھی راستہ اختیار کرے گا اس کا اثر ملک کی آنے والی نسلوں کی فلاح وبہبود پر پڑے گا۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ یوروپی یونین کے اندر برطانیہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، برطانوی معیشت میں نئی دہلی کے اپنے مفادات ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں تقریبا 800 ہندوستانی کمپنیاں ہیں جن میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگ کام کررہے ہیں بریگزٹ معاملہ پر پیدا صورت حال کی وجہ سے ان سبھی کامستقبل غیر یقینی سا ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی نہیں بھولنا

چاہیے کہ یوروپی یونین میں داخلہ کے لیے ہندوستان نے برطانیہ پر ہی ہمیشہ بھروسہ کیا ہے۔ اس لیے وہاں کی موجودہ صورت حال پر ہندوستان کو بھی تشویش ہے۔