ہندوستان کی معاشی ترقی

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تازہ ترین رپورٹ بعنوان ‘‘ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک’’ کے مطابق 19۔2018 کے لئے ہندوستان کی کل گھریلو پیداوار کی حقیقتی نمو کے لئے سات اعشاریہ تین فیصد کی جو پیش گوئی کی تھی وہ برقرار ہے جبکہ 20۔2019 کے لئے یہ نمو مقابلتاً کہیں زیادہ یعنی سات اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ اس رپورٹ میں بیان کی گئی ہندوستانی معاشی نمو چین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جس کے مطابق ان دونوں برسوں میں چین کی یہ نمو چھ اعشاریہ دو فیصد رہے گی۔

تیل کی قیمتوں میں کمی سے ہندوستان کی تیز نمو میں کافی مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ترقی میں  تیزی کی ایک اور وجہ شرح سود میں اضافے میں سست رفتاری بھی بیان کی گئی ہے۔ تاہم روزگار کی اطمینان بخش تشکیل میں کمی کو ہندوستانی معیشت کے لئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ مزید برآں ہندوستان میں یونیورسل بیسک انکم یعنی یو بی آئی کے آغاز کا اقدام بھی موضوع بحث ہے جس کے ذریعہ مختلف خدمات کے عوض نقد لین دین کی منتقلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ کچھ ہندوستانی ریاستیں سنجیدگی کے ساتھ یو بی آئی کی شروعات پر غور کررہی ہیں۔ اس یو بی آئی کو حکومت ہند کے ذریعہ تیار کردہ بہبودی اسکیموں کے لئے طاقتور پالیسی متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم عوامی مالیہ میں مالی شمولیت اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے میں ناکافی پیش رفت کی وجہ سے اس تبدیلی کو متعدد چیلنج درپیش ہیں۔

اس ماہ جاری کی گئی آئی ایم ایف کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا  ہے کہ ہندوستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کی تیز ترین رفتار اقوام عالم میں برقرار رہے گی۔ ماہرین معاشیات اس بات سے انکار کررہے ہیں کہ دنیا کو درپیش ناموافق حالات کے مضر اثرات ہندوستان کی معیشت پر پڑیں گے۔ متوقع ناموافق حالات میں  نہ صرف امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی پیدا کررہے ہیں بلکہ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ان ناموافق حالات کے پیش نظر آئی ایم ایف نے عالمی نمو میں کمی کی پیش گوئیوں پر نظر ثانی کی ہے۔ یہ 2019 کے لئے صفر اعشاریہ دو فیصد اور 2020 کے لئے صفر اعشاریہ ایک فیصد پوائٹس ہے۔ بنیادی طور پر ناموافق حالات، اشیا کی منڈیوں اور مالی منڈیوں کی وجہ سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

سرمایہ کاری کے سلسلے میں امریکی معیشت کا ہندوستان پر دباؤ بھی باعث تشویش ہے۔ یہ سرمایہ کاری تجارت اور شرح سود میں فرق پر مبنی ہے۔ امریکہ کی شرح محصول کافی زیادہ ہے جس کا ترقی پذیر ملکوں کی تجارت پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ تاہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ تجارت کے شعبہ میں اعلی مقام تک پہنچ چکا ہے جبکہ دنیا کی معیشت امریکہ  کا مقام حاصل کرنے سے کافی دور ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزگار کے مواقع کافی زیادہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہاں صارفین کے اعتماد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ امریکہ کو اگر تھوڑا بہت خطرہ ہوگا تو وہ اقتصادی شعبوں میں ہوگا۔

معاشی ترقی کو برقرار رکھنے میں مالی استحکام کا جو معیار ہے وہ بھی باعث تشویش ہے۔ کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (Comptroller and Auditor General) کی حالیہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اس کا معاشی ترقی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ دوسرا قابل بحث موضوع ہے جی ایس ٹی کی شرحوں سے متعلق نئی ٹیکس اصلاحات۔ جی ایس ٹی کے نفاذ میں مختلف قسم کے ٹیکسوں کو بہت بڑا چیلنج سمجھا جارہا ہے۔ تاہم جی ایس ٹی اور انسالونسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (Insolvency & Bankrupcy Code) جیسی بنیادی اصلاحات مستقبل میں معاشی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔

کسانوں کو درپیش مسائل بھارت میں پائیدار معاشی ترقی کے لئے ایک  بڑا چیلنج ہے۔ معاشی ترقی کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی نابرابری کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف کسانوں  کےقرضوں کو معاف کرنے کی پالیسی اس مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ بھارت میں چند ہی ایسے کسان ہیں جو بینکوں سے قرض لے پاتے ہیں۔ امید ہے کہ 20۔2019 کا بجٹ کسانوں کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

جس روز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنی رپورٹ شائع کی، اسی روز ایک کثیر ملکی پیشہ ور ایجنسی، پرائس ویئر ہاؤس کوپرس (Price Warehouse Coopers)  نے اپنی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق امید ہے کہ 2019 میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی درجہ بندی میں بھارت اور فرانس برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔