ہندوستانی جمہوریت کا شاندار فروغ

بھارت آج  اپنا 70 واں یوم جمہوریہ منارہا ہے۔ اس مبارک موقع پر اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت حاصل کرنے میں ملک کو کن کن آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اسے کیا کیا مصیبتیں سہنی پڑیں اور اس کے حصول کے بعد کتنی شادمانی حاصل ہوئی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قیادت میں ایک لمبی جدو جہد آزادی کے بعد بھارت کو آزادی ملی لیکن آزادی کے ساتھ ساتھ کئی مسائل بھی سامنے آئے۔ چھبیس جنوری انیس پچاس کو بھارت ایک جمہوری ملک بن گیا۔ اسی کے ساتھ ہی تمام ایشیا اور افریقہ میں نو آباد کاری کا خاتمہ شروع ہوگیا۔ اس وقت ملک کو غربت، ناخواندگی، بیماریوں اور بنیادی ڈھانچوں کی کمی کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں ملک میں کافی اصلاحات ہوئیں جن کے باعث ملک کا عالمی برادری میں آج ایک خاص مقام ہے۔

بھارت آج دنیا کی سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشت بن چکا ہے۔ پنچایت سے لیکر پارلیمنٹ تک اس کے تمام جمہوری اداروں کے لئے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک مضبوط جمہوری ملک ہے جہاں کے لوگ جمہوری عمل میں یقین رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ملک نے ہر شعبہ میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ مالی سال دو ہزار چودہ۔ پندرہ اور  دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ کے دوران کل گھریلو پیداوار کی اوسط شرح ترقی سات اعشاریہ تین فیصد رہی جو کہ دنیا کی بڑی معیشتیں بھی حاصل نہیں کرسکیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال دو ہزار انیس۔ بیس کے دوران ہندوستانی معیشت میں سات اعشاریہ پانچ فیصد کی شرح سے ترقی ہوگی۔

اس بین الاقوامی ادرے کی پیش گوئی ثابت کرتی ہے کہ ہندوستانی معیشت کافی مضبوط ہے۔ اس سلسلے میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ معاشی شعبہ میں یہ ترقی کم افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ  توازن میں بہتری کے تناظر میں حاصل کی گئی۔ جی ایس ٹی کے نفاذ سے بینکوں کے غیر فعال اثاثوں سے متعلق مسئلوں کے حل کرنے میں کافی مدد ملی۔ اس کے علاوہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق ضوابط میں نرمی سے معاشی اصلاحات کو تقویت ملی۔ ایک دوسری حصولیابی ہے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ جو جنوری دو ہزار اٹھارہ میں تقریباً چار سو چودہ ارب امریکی ڈالر تھے۔

حالیہ برسوں میں بھارت تجارت و کاروبار کے لئے ایک بہترین ملک بن کر ابھرا ہے جس کا اعتراف عالمی بینک نے بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بینک نے پچھلے سال اپنی ‘‘ڈوئنگ بزنس رپورٹ دو ہزار انیس’’ میں بھارت کا مقام بڑھاکر 23 ویں مقام پر کردیا۔ یہ لگاتار دوسرے سال تھا  جب بھارت کو تجارت و کاروبار کرنے کے لئے بہترین ملک قرار دیا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم، دین دیال انتودیہ یوجنا، نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام پردھان منتری جن دھن یوجنا، پردھان منتری جیون جیوتی بیمیہ یوجنا، اٹل پنشن یوجنا جیسے پروگراموں کے ذریعہ تقریباً ملک کے 78 فیصد لوگوں کو خط افلاس سے اوپر اٹھایا گیا۔ مدرا یوجنا کا مقصد ملک کے نوجوان طبقہ کی چھوٹی تجارت کو فروغ دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اسی طرح پرائم منسٹر امپلائمنٹ جنیریشن پروگرام سوشل سکیورٹی فار اَن آرگنائزڈ ورکرس   اور کریڈٹ گارنٹی فنڈس  جیسی اسکیموں کا مقصد آمدنی کے ذرائع پیدا کرنا ہے تاکہ لوگوں کا گذر بسر ہوسکے۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ  کے مطابق وہ شخص نہایت غربت  کی زندگی بسر کرتا ہے جس کی ایک دن کی آمدنی ایک اعشاریہ نو ڈالر سے کم ہو۔ اس ادارہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں دو ہزار بائیس تک تین فیصد سے بھی کم لوگ غریب رہ جائیں گے اور دو ہزار تیس تک ملک سے انتہائی غربت ختم ہوسکتی ہے۔

نیشنل رورل ڈرنکنگ واٹر پروگرام ، نیشنل ریور کنزرویشن پروگرام ، پردھان منتری اجوّلا یوجنا، شیاما پرساد مکھرجی اربن مشن، ہاؤسنگ فار آل، ڈیجیٹل انڈیا اور آیوشمان بھارت صحت اسکیم جیسے پروگراموں کے ذریعہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی پوری کوششیں کی گئیں۔ اس ترقی کو برقرار رکھنا ملک اور عوام کے مفاد میں ہے اور اس سلسلے میں اب ہمیں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔