پورا خطہ پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کی زد میں

پلوامہ کے وحشیانہ حملے کے کئی روز بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے زبان کھولی بھی تو اس غیر انسانی واقعے کی مذمت کرنے یا شہید جوانوں کے عزیزوں کے تئیں اظہار ہمدردی کرنے کی بجائے سیدھا ہندوستان ہی کو موردالزام ٹھہرایا کہ وہ پاکستان پر غلط الزام لگا رہا ہے اور یہ کہ اگر اس کے پاس کوئی ایسا ثبوت ہو تو پیش کرے، جس کی بنیاد پر کسی گروپ کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری لیے جانے کے باوجود انھوں نے حملہ آوروں کا براہ راست بچاؤ کیا، جبکہ پوری دنیا نے نام لے کر جیش محمد کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ عالمی برادری سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ ہندوستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے ہر‘‘موسم کے دوست’’چین نے بھی جس نے ماضی میں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اقوام متحدہ کی سیکورتی کونسل میں جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کی تجویز کو ویٹو کیا تھا۔ سیکورتی کونسل کی اس قرار داد پر دستخط کیے ، جس میں پلوامہ حملے کی سخت ترین لفظوں میں مذمت کی گئی تھی۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ وزیراعظم پاکستان ایسے بھیانک جرم کو نظر انداز کرکے دہشت گرد تنظیموں کی بالواسطہ حمایت کرتے نظر آئے۔ یہ موقف پاکستان کے فوجی جنرلوں کا تو ہوسکتا ہے، کسی منتخب وزیراعظم کا نہیں۔ بہر حال انہیں یہ بھی معلوم ہوہی گیا  ہوگا کہ پلوامہ حملے سے عین قبل جیش العدل نام کی ایک دہشت گرد تنظیم نے ایران کے صوبۂ سیستان بلوچستان میں 27 ریولیوشنری گارڈز کو بھی ہلاک کردیا تھا، جس پر ایران نے نہ صرف پاکستان کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا، بلکہ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر پاکستان نے ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنا بند نہیں کیا تو ایران پاکستان کے اندر گھس کر انتقامی کارروائی کرے گا۔ دھمکی دینے والوں میں صرف ایران کی اعلیٰ ریولیوشنری فورس کے سربراہ ہی نہیں تھے، بلکہ خود صدر ایران حسن روحانی نے بھی یہں کہا تھا۔ چھان بین کے بعد یہ بھی پتہ چلا کہ ریولیوشنری گارڈز پر حملہ کرنے والے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں، بلکہ حملہ کرنے والوں میں خود پاکستانی شہری بھی شامل ہوتے ہیں۔ ریولیوشنری گارڈز کے بریگیڈیئر محمد پاکپور کے مطابق جس خودکش بمبار نے 27 ایرانی جوانوں کو ہلاک کیا تھا وہ خود تو پاکستان شہری تھا، لیکن ایک اور پاکستانی کی بھی نشاندہی ہوئی ہے، جو اس حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ پاکستانی خودکش بمبار کا نام حافظ محمد علی بتایا گیا ہے۔ حملہ کرنے والے بعض دہشت گرد گرفتار بھی کیے گئے اور بعض فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کی زمین کا کتنے بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہے، اس کی یہ ایک تازہ ترین مثال ہے۔ہندوستان افغانستان اور ایران تمام ملکوں میں حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں بڑی ڈھٹائی سے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہیں، لیکن پاکستانی حکام ہیں کہ وہ ایک ہی رٹ لگائے ہیں کہ پاکستان کا کسی بھی دہشت گرد گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جہاں تک ایران کا سوال ہے تو یہ ملک بھی ایک لمبے عرصہ سے پاکستان سے شکایت کرتا رہا ہے کہ پاکستان ان عناصر کی پشت پناہی کررہا ہے، جو ایران کے سرحدی صوبے میں گھس کر حملے کرتے ہیں اور مسلکی منافرت کو فروغ دیتے ہیں۔ اتفاق سے پاکستان سنی انتہا پسند گروپوں کا بھی سب سے بڑا مسکن ہے۔ حالیہ برسوں میں جیش العدل نام کی تنظیم نے ایران میں لگاتار حملے کیے ہیں۔ اس سے پہلے ایک دوسرا گروپ سرگرم تھا اور وہ بھی پاکستان ہی سے منصوبہ بندی کرتا تھا، لیکن ایران نے اسے بڑی حد تک ختم کردیا ہے۔ اس کی جگہ جیش العدل بہت زیادہ سرگرم ہے۔ کیا عمران خان ان تمام حقائق کو جھٹلائیں گے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کی سرپرستی میں اور انہیں کے اشارے پر سب کچھ ہوتا ہے۔ ایک تازہ ترین مثال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو امن سے کم اور بدامنی سے زیادہ دلچسپی ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد ہندوستان کا جو سخت رد عمل آیا ہے، اس سے بوکھلاکر پاکستان کے سفیر برائے افغانستان زاہد نصراللہ نے یہ بیان داغ دیا کہ اگر ہندوستان کوئی جوابی کارروائی کرتا ہے تو خطہ کا استحکام متاثر ہوگا اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ ذرا غور کیجئے ، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟ یہی ناکہ افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی جائے گی؟ یہ ایک طرح سے اس بات کا اعتراف ہے کہ خلل ڈالنے کا کام پاکستان انجام دیتا ہے۔