عمران خان کا مشورہ- لیکن عملی اقدام کی ضرورت

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کو یہ مشورہ دیا ہےکہ وہ امن کو ایک موقع دیں، ا س سے پہلے انہوں نے پلوامہ حملے کےبارے میں جو کچھ کہا تھا اس میں اس بات سے تقریباً انکار کردیا تھا کہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ گویا ان کے مطابق ہندوستان نےیہ غلط الزام لگایا تھا کہ حملے کی ذمہ دار تنظیم کا تعلق پاکستان سےہے۔ حالانکہ سو فیصد یہی حقیقت ہے کہ جیش محمد کا مرکز پاکستان ہے اور مسعود اظہر اس کا سربراہ ہے۔ اس کی جانب سے حملے کی ذمہ داری لینے کے باوجود اگر عمران خان اس حقیقت کو جھٹلاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ پاکستان سرے سے ہندوستان کی شکایت کو نظر انداز کررہا ہے۔ غور کیجئے دسمبر 2015 میں وزیراعظم مودی سے ہونےوالی اپنی بات چیت کا ذکر تو وہ کرتے ہیں کہ اس دوران دونوں لیڈروں کے مابین یہ بات ہوئی تھی کہ غریبی کے خلاف جنگ شروع کرنا دونوں ملکوں کا بنیادی کام اور مسئلہ ہے اور کسی کو بھی اپنی زمین کو دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے لیکن تازہ مشورہ دیتے وقت وہ یہ بات بھول گئے کہ پاکستان کی سرزمین ہندوستان کے خلاف بے روک ٹوک استعمال ہورہی ہے اور پاکستان اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہا ہے۔ عمران خان ہوں یا پاکستان کا کوئی اور سیاست داں، وہ اچھی طرح  یہ بات جانتا تھا کہ پاکستانی فوج کی پالیسی کا ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ پڑوسی ملکوں کو غیر مستحکم بنانے کے لئے نان اسٹیٹ ایکٹرس (Non State Actors) کا استعمال بے دریغ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف خود کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ لشکر طیبہ سمیت بعض گروپوں کو اسی لئے قائم کیا گیا تھا کہ وہ تخریب کارانہ سرگرمیوں کو انجام دیں، سو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروپ مسلسل ہندوستان میں حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں اور جب بھی انہیں ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان قیام امن کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں، تو وہ کسی نہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سے آگے بڑھتی ہوئی بات چیت رک جائے۔

عمران خان کا یہ مشورہ تو یقیناً نیک ہے کہ امن کو موقع ملنا چاہیے لیکن وہ عین اسی حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ امن میں خلل ڈالنے کا کام وہی گروپ انجام دیتے ہیں جن کی کمین گاہیں خود پاکستان میں ہیں اور انہیں پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان کو اگر 2015 میں ہونے والی نریندر مودی سے بات چیت یاد ہے تو انہیں یہ بات بھی یاد ہوگی کہ 2015 میں دونوں ملکوں نے تعلقات کو  بہتر بنانے کےلئے بات چیت کا خاکہ تیار کیا تھا۔ ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد گئی تھیں تو اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹری مل کر بات چیت کا شیڈول تیار کریں گے۔ یہ بھی 2015 کی بات ہے اور 2015 ہی کے دسمبر مہینہ میں خود وزیراعظم نریندر مودی، بغیر کسی پروگرام کے لاہور گئے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ان کے آبائی مکان پر جاکر ایک تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔ ان باتوں کا صرف یہی مقصد تھا کہ اعتماد قائم ہو اور امن کو موقع دیا جائے لیکن اس کوشش کو اس وقت نہ صرف دھکا لگا بلکہ رکاوٹ بھی پڑگئی جب ان کے دورۂ  لاہور کے عین ایک ہفتے بعد ہی جیش محمد نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کردیا۔ وہ حملہ بھی کوئی آخری حملہ نہیں تھا۔ اس کے بعد اُری پر حملہ ہوا اور متعدد جوانوں کو شہید کیا گیا اور اب پلوامہ میں بربریت سے پُر یہ وحشیانہ حملہ ہوا جس میں 40 سے زیادہ نیم فوجی دستے کے جوان شہید ہوئے۔ اس پس منظر میں کسی قدر مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ خود ہندوستان کے وزیراعظم کو امن قائم کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور حملہ آوروں کے لئے ثبوت مانگے جارہے ہیں ؟ اس کا مطلب سیدھا سیدھا کہا جارہا ہے کہ ان پاکستانی گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بس آپ یہ سب کچھ جھیلتے رہئے اور امن کو موقع دیجئے۔ ہم عمران خان کو پاکستان کی ممتاز تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کی یہ بات یاد دلانا  چاہتے ہیں کہ ساری پیچیدگیوں کی اس جڑ یہ ہے کہ پاکستانی فوج اچھے اور برے دہشت گردوں کی درجہ بندی کرکے اس کے خیال میں جو اچھے گروپ ہیں ان کا بچاؤ کرتی ہے ۔ عمران خان کو یہ بنیادی نقطہ سمجھنا چاہیے کہ جیش محمد اور لشکر طیبہ گروپ فوج کے منظور نظر ہیں اور یہی ہندوستان میں حملے کرتےہیں۔ اگر امن کو واقعی موقع دینا ہے تو ان گروپوں پر لگام دیئے بغیر امن اور سلامتی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔