اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی تجویز پر چین کا ویٹو

پاکستان میں واقع دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیئے جانے سے  متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک تجویز پر چین نے ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر بچالیا ہے۔ ایسا لگاتار چوتھی بار ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جیش محمد تنظیم پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی ذمہ دار ہے جس میں سی آر پی ایف کے 40 سے زیادہ جوان شہید ہوگئے تھے اور جس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیئے جانے کی تجویز امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے پیش کی تھی۔ ہندوستان نے اس تجویز پر چین کی جانب سے حق تنسیخ استعمال کئے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

درحقیقت چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے۔ پاکستان کو چین سے کافی امداد بھی ملتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اگر اظہر کے معاملہ میں اس نے بین الاقوامی برادری کا ساتھ دیا تو چین۔ پاکستان معاشی راہداری پروجیکٹ کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اسے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو جیش محمد اس کے شورش زدہ مسلم اکثریت والے شن جیانگ صوبے میں عسکریت پسندی کو بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ جیش محمد تنظیم کے بارے میں دوغلے پن سے کام لے رہا ہے۔ اس معاملے پر ملک کی شہری انتظامیہ کچھ کہتی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کچھ اور۔ پلوامہ حملے کے جواب میں ہندوستان نے بالاکوٹ پر جو غیرفوجی کارروائی کی اس کے بعد دونوں کے متضاد بیانات آئے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلی بار اعتراف کیا کہ مسعود اظہر پاکستان میں ہی ہے اور حکومت اس کے رابطہ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کافی علیل ہے اور گھر سے باہر نکلنے کے لائق نہیں ہے جبکہ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان میں جیش محمد کی موجودگی سے ہی انکار کردیا۔ پلوامہ حملے کے فوراً بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا  تھا کہ اگر نئی دہلی ٹھوس اور قابل کارروائی ثبوت فراہم کرے تو وہ حملہ میں جیش محمد کے ملوث ہونے کی جانچ کراسکتے ہیں۔ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے عمران خان نے محض ایک بار نہیں بلکہ بار بار یہ پیش کش کی۔ لیکن جیش محمد کے حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اسلام آباد نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

جیش محمد درحقیقت پاکستان کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے حال ہی میں کہا تھا کہ یہ دہشت گرد تنطیم  پاکستان میں موجود ہے جس کا استعمال ہندوستان میں حملوں کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اس دہشت گرد تنظیم نے ان پر دوبار جان لیوا حملے کئے لیکن وہ بچ گئے۔ پاکستانی حکومت کا یہ دعویٰ کہ فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس سے کئے گئے وعدوں اور قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، صرف ایک ڈھکوسلا ہے اور کچھ نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور ان کے گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کبھی بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیا۔ 26نومبر 2008 کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسلام آباد نے یہ ماننے سے انکار کردیا تھا کہ اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے ہے۔ قصاب کو حملوں کے دوران گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ باقی حملہ آور مارے گئے تھے۔ قصاب پر مقدمہ چلنے کے بعد اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی اور بالآخر اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ لیکن جب عالمی میڈیا نے یہ ثابت کردیا کہ اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے ہی ہے تب جاکر اسلام آباد کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑی۔

ہندوستان سرحد پار سے دہشت گردی کا معاملہ اقوام متحدہ میں بار بار اٹھاتا رہا ہے لیکن جب تک بڑے ممالک اسلام آباد کو سخت پیغام نہیں دیتے پاکستان میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ چین سلامتی کونسل کا ایک ذمہ دار مستقل رکن ہے۔ اسے دہشت گردی کی عالمی لعنت سے نمٹنے میں اور زیادہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ چین ان ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے پلوامہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔ اس لئے امید کی جارہی تھی کہ وہ اس بار مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قررا دینے میں سلامتی کونسل کے دوسرے مستقل ارکان کا ساتھ دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس نے اپنے ویٹو کا استعمال کیا جس کی وجہ سے تجویز پر تکنیکی بنیاد پر روک لگ گئی۔ اسی دوران ہندوستان نے کہا ہے کہ وہ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تمام لوگوں کو سزا دلانے کیلئے تمام وسائل کا استعمال کرتا رہے گا۔