دہشت گرد گروپوں کیخلاف ٹوئیٹ پر بلاول بھٹو کی سرزنش

یہاں ہم مجبور ہوئے نیوزی لینڈ کی جواں سال وزیراعظم جاسنڈا آرڈن کے بیانات اور اقدامات کا حوالہ دینے پر جنھوں نے نیوزی لینڈ کی مسجدوں پر ہونے والے حملے اور پچاس افراد کی ہلاکت کے بعد کچھ ایسے تیور اختیار کیے جو دنیا بھر کے لیڈروں اور حکمرانوں کے لیے قابل تقلید ہیں۔ اس المناک واقعے پر انھوں نے نہ صرف یہ کہ ہلاک ہونے والوں اور ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے تئیں اظہار ہمدردی و یکجہتی کیا، انہیں اپنا بتاکر تکثریت پسندی کا ثبوت دیا، بلکہ حملہ آور دہشت گرد کا نام لینے تک سے گریز کیا، کیونکہ ان کے خیال میں اس کا نام لینا بھی اعتبار عطاکرنے کے مترادف ہوگا۔ انھوں نے نہ صرف سخت ترین کارروائی کرنے کا اعلان کیا بلکہ بندوق اور اسلحوں سے متعلق قانون میں بنیادی تبدیلی لانے کا بھی فی الفور فیصلہ کیا، جو لوگ دہشت گردانہ یا کسی بھی طرح کے خون خرابے کے واقعات کو تاریخی واقعات یا انتقامی کارروائی کے نام پر براہ راست یا بالواسطہ جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسے حملوں کی شدت کو معمولی کارروائی کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم  سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ انھوں نے اپنی پوری قوم کو دہشت گردی کی مذمت کرنے ، مجرم کو قرار واقعی سزا دلوانے اور مظلوموں کے درد کو بانٹنے کےلئے متحد کیا۔

دوسری مثال پاکستان کی ہے، جہاں دہشت گردی کی پناہ گاہیں اور تربیت گاہیں قائم ہیں اور جہاں کا فوجی اسٹیبلشمنٹ خفیہ ایجنسیاں اور بہت سے سیاست دان اپنی خارجہ پالیسی کے طور پر دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں اور جب ان سے عامل برادری دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کرتی ہے تو وہ ٹال مٹول کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یا سرے سے انکار کرتے ہیں کہ پاکستان کسی دہشت گرد گروپ کی پشت پناہی کرتا ہے، حالانکہ عالم یہ ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار نے پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی کے رنگ میں اس حد تک رنگ دیا ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر اگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو فوج اور ایجنسیوں کی شہ پر انتہا پسند حلقہ اور خود حکومت سے وابستہ کچھ لوگ اس کے خلاف طوفان برپا کردیتے ہیں، اسے دھمکیاں دیتے ہیں۔ احتساب بیورو اور دوسرے ادارے بھی جھوٹا مقدمہ قائم کرکے اسے نوٹس دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک تازہ مثال یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں پچھلے دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کامطالبہ کیا اور پاکستان کا نظم و ضبط چلانے والوں کو یہ یاد دلایا کہ نیشنل ایکشن پلان جو وضع کیا گیا تھا، اس کے مطابق عمل کیوں نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ پلوامہ میں جیش محمد کے حملے کے پس منظر میں حکومت پاکستان سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اس نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ بلاول بھٹو نے ارباب اختیار سے یہ بھی پوچھا کہ پشاور اسکول پر حملے کے بعد یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ اب اچھے اور برے دہشت گرد کے درمیان امتیاز کیے بغیر ہر گروپ کے خلاف کارروائی ہوگی، تو اس عزم کا کیا ہوا، کیونکہ کارروائی نہیں کی گئی۔ عمران حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ چونکہ ان کی کابینہ میں شامل بعض وزراء ایسے بھی ہیں جو دہشت گرد تنظیموں کے لیڈروں سے رابطہ رکھتے ہیں اور کھلم کھلا ان کی حمایت کرتے ہیں، لہٰذا ایسے وزراء کو برخاست کیا جانا چاہئے۔ بلاول بھٹو کے جن وزراء کی طرف اشارہ کیا تھاان کے نام سبھی جانتے ہیں اور پاکستان کے بیشتر اخباروں نے بھی یہی کہا ہے کہ ایسے لوگوں کو حکومت میں نہیں رہنے دینا چاہئے۔ ان کے نام ہیں اسعد عمر جو وزیر خزانہ ہیں۔ دوسرے ہیں وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی اور تیسرے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد۔

بلاول بٹھو کی تقریر اور متنازع وزراء کو برخاست کیے جانے کے مطالبہ کے جواب میں ان کے ساتھ کیا سکول ہوا یہ خود انہیں کی زبانی سنئے۔ انھوں نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ میں نے دہشت گردوں سے یارانہ رکھنے والے وزراء کو برخاست کرنے کا جو مطالبہ کیا، اس کے جواب میں مجھے پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا۔ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور یہ کہہ کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ مجھے احتساب بیورو کی جانب سے نوٹس مل سکتے ہیں۔

اس واقعے کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اندازہ ہوسکے کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کے تئیں سرکاری سطح پر  بھی کافی نرم گوشہ موجود ہے۔ ارباب اختیار اور انتہا پسند حلقوں کے رشتے کچھ اتنے اٹوٹ نوعیت کے ہیں کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو تو پاکستان کا دوست، لیکن اپوزیشن لیڈروں کو پاکستان کا دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں عمران حکومت سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ممنوعہ تنظیموں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرے گی؟