یوکرین کی تاریخ کا نیا باب

یوکرین میں مزاحیہ اداکار ولودومیر زیلینسکی  نے صدارتی انتخابات جیت کر ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔ زیلینسکی کی یہ کوئی معمولی جیت نہیں تھی بلکہ انتخابات میں انہوں نے 73 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ وہ روسی زبان بولتے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب یہودیوں سے ملتا ہے۔ وہ یوکرین کے سب سے کم عمر صدر ہوں گے۔

ایک ہردلعزیز اور مشہور ٹی وی سیریز میں زیلینسکی نے ایک معرکہ آرا صدر کا کردار ادا کیا تھا لیکن اب انہوں نے اپنا کردار بدل کر صحیح معنوں میں ملک کے صدر کی حیثیت سے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور انہوں نے انتخابات سے محض چار ماہ پہلے اپنی امیدواری کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل بھی کافی تاخیر سے کی تھی۔

یوکرین کے انتخابی نتائج بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کے نتائج کی عکاسی کرتے ہیں جہاں ایسے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جنہیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے یا اگر ہے بھی تو بہت کم۔ انہوں نے انتخابات میں فتح حاصل کی تو اس وجہ ہے کہ وہ کافی ہردلعزیز تھے اور رائے دہندگان حکومت سے ناراض۔ زیلینسکی موجودہ صدر پیٹرو پورو شینکو کے خلاف انتخابی میدان میں تھے جنہوں نے ‘‘چرچ، فوج اور زبان’’ کے نعرے کے ذریعہ حب الوطنی کے جذبات بھڑکا کر الیکشن جیتنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے برخلاف زیلینسکی نے 2014 میں ہوئے ‘میدان’ انقلاب کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنایا اور رائے دہندگان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس انقلاب سے وہ سب کچھ حاصل نہ ہوسکا جن کے لئے یہ شروع کیا گیا تھا۔ انتخابات کے دوران رائے دہندگان کے سامنے جو موضوعات تھے ان میں بدعنوانی، معیشت کی بدحالی اور روس کے ساتھ ٹکراؤ سب سے اہم تھے۔

زیلینسکی نے اپنے انتخابی منشور میں داخلی اصلاحات اور متوازن خارجہ پالیسی پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا جھکاؤ یوروپ کی طرف رہے گا لیکن اسی کے ساتھ وہ مشرق میں ڈونیسک اور لوہانسک  میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ روس کے ساتھ بھی کوئی سمجھوتہ چاہتے ہیں۔ یوکرین ایک بدلتے ہوئے دور سے گزر رہا ہے اور مستقبل میں زیلینسکی کی طرز حکمرانی ہی طے کرے گی کی ملک کتنی کامیابی حاصل کررہا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیلینسکی کو کسی ادارے سے جڑے رہنے کا تجربہ بہت کم ہے۔ اس لئے یوکرین جیسی پارلیمانی جمہوریت میں ان کے اہم ایجنڈے کو پورا کرنے میں دشواری آسکتی ہے۔ ملک کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کو طے کرنے کا اختیار  صرف صدر کو ہے اس لئے ان شعبوں میں ہوسکتا ہے کہ انہیں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، تاہم سیاسی اپوزیشن کے باعث داخلی اصلاحات میں مشکلات ضرور آسکتی ہیں کیونکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے نامقبول اصلاحات اور روس کی پابندیوں کے باعث یوکرین کی معاشی حالت ابتر ہے اور یہی دو باتیں زیلینسکی کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یوکرین مشرق اور مغرب میں بٹا ہوا ہے اور ان دونوں میں توازن برقرار رکھنا  بھی زیلینسکی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

بہرحال ایک ایسے امیدوار کے لئے جس کو روسی زبان بولنے والے مشرقی علاقوں سمیت پورے یوکرین سے حمایت ملی ہے، زیلینسکی کی سیاسی طاقت کو،سیاسی اکثریت کی عدم موجودگی کی وجہ سے دشواری پیش آئے گی۔ زیلینسکی کے سیاسی دامن پر کوئی داغ نہیں ہے اس لئے انہیں خارجہ پالیسی اور اپنے داخلی ایجنڈے پر کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا۔ ملک میں اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ہی یہ بات واضح ہوسکے گی کہ زیلینسکی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔

ادھر روس کے ساتھ کشیدگی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ منسک  معاہدہ روس جس کے نفاذ کا مطالبہ کررہا ہے، علیحدگی پسندوں کے حق میں نظر آتا ہے اور یہی مسئلہ زیلینسکی کے لئے اہم مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ان کے لئے سب سے بڑا امتحان ہوگا۔

روس کے ترجمان نے بڑے محتاط انداز میں بیان دیا ہے کہ صدر پوتن کا زیلینسکی کو مبارکباد پیش کرنا یا ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ یہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ زیلینسکی کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ  لمبی مدت کی جنگ بندی اور قیدیوں کی ادلا بدلی جیسے اعتماد سازی کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان شاید کشیدگی کچھ کم ہوسکے۔ایک دوست ملک کی حیثیت سے بھارت چاہتا ہے کہ روس اور یوکرین اپنے اختلافات دور کرکے امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہوں جو یوکرین کے لئے نہایت ضروری ہے۔