دہشت گردی سے لڑنے کا طریقہ؟

حالیہ برسوں میں عالمی پیمانے پر دہشت گردی نے جس طرح قدم جمائے ہیں، بالخصوص جہادی تنظیموں کے نٹ ورک کو جو طاقت ملی ہے، اس سے بجا طور پر پوری دنیا میں زبردست بے چینی پیدا ہوئی ہے اور امن پسند دنیا اس تشویش میں مبتلا ہوئی ہے کہ آخر اس لعنت کا قلع قمع کس طور پر کیا جائے؟ حال ہی میں سری لنکا کے چرچ اور مہنگے ہوٹلوں میں دہشت گردوں نے جس ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے جنوبی ایشیا میں بطور خاص تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تک کی چھان بین سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مڈل ایسٹ کے بدنام زمانہ گروپ آئی ایس نے ایک مقامی انتہاپسند تنظیم کے تعاون اوراشتراک سے یہ سب کچھ کیا تھا۔ عام طور سے بعض حلقے یہ تاثر دیتے ہیں کہ اگر گمراہ نوجوانوں کے لئے مناسب تعلیم اور روزگار فراہم کئے جائیں تو انہیں اس لعنت سے دور رکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک تو درست ہوسکتی ہے کیونکہ بعض دہشت گرد تنظیمیں بے کار اور غیر تعلیم یافتہ  یا نیم تعلیم یافتہ لڑکوں کو اپنی صفوں میں شامل کرکے ان کی برین واشنگ کرتی ہیں اور ان کے غریب والدین کو اقتصادی فائدہ پہنچاکر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں لیکن بات اتنی آسان بھی نہیں ہے کیونکہ عالمی پیمانے پر ہونے والے بعض بڑے حملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ واردات انجام دینے والے نہ صرف اعلی تعلیم سے آراستہ تھے بلکہ اقتصادی طور پر بھی کافی خوشحال تھے۔ اگر سری لنکا میں ہونے والے حالیہ حملوں کی بات کی جائے تو یہاں بھی یہی دیکھا گیا کہ جو خودکش بمبار ان حملوں میں ملوث تھے وہ سب کے سب نہ صرف خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے ملک سے باہر جاکر اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ پاکستان کے ممتاز کالم نگار عرفان حسین نے حال ہی میں اخبار ڈان میں اپنے کالم میں پاکستان کے بعض خطرناک دہشت گردوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں ایک عمر سعید شیخ بھی ہے جس نے ایک امریکی صحافی ڈینیل پرل کو کڈنیپ کرکے اس کا سر قلم کردیا تھا۔ اس نے اپنا جرم قبول کیا ہے۔ اسے موت کی سزا بھی ہوئی۔ وہ اس وقت جیل میں ہے اور اس کی اپیل پر ابھی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ اس نے لاہور کے انتہائی معروف کالج اور لندن اسکول آف ایکونومکس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی طرح کراچی کا سعد عزیز بھی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے بزنس  کی اعلی تعلیم حاصل کی اور ایک بڑے ریسٹوراں کا مالک بھی تھا۔ اس نے ایک بس پر ہونے والے حملے کی قیادت کی تھی۔ اس حملے میں 54 اسماعیلی فرقہ کے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ کراچی کی ایک لبرل اکٹی وسٹ سبینہ محمود کو بھی اسی نے ہلاک کیا تھا۔ اسے ایک امریکی پروفیسر کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں سزا ہوئی۔

ایسے دہشت گردانہ حملوں کی سب سے بڑی مثال تو نو ۔گیارہ کا واقعہ تھا جس میں نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر زمیں بوس ہوگیا تھا نیز واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکی وزارت دفاع کے دفتر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ ان حملوں میں کمرشیل جٹ چلانے والے دہشت گرد، اعلی تعلیم یافتہ اور امیر و کبیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ سری لنکا میں جن دو بھائیوں نے متعدد افراد اور خود اپنے آپ کو دھماکوں کی نذر کردیا تھا وہ ارب پتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جہادی تنظیموں کے فروغ پر نظر رکھنے والے محققین، تجزیہ کار اور صحافیوں میں سے بیشتر کا یہ خیال ہے کہ بعض عرب ممالک کی رقم اوور امداد سے مختلف ممالک میں مدرسوں کا جو مضبوط نٹ ورک قائم ہوا ہے ان میں وہابی/ سلفی مسلک کے انتہاپسندانہ نظریات اور جہادی ذہنیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس سے جہادی انتہاپسندی پنپ رہی ہے۔ تکلف برطرف بعض بڑے اور ترقی یافتہ ممالک دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ باتیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح بعض ممالک نے دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کے حصے کے طور پر فروغ دیا۔

ہندوستان نے اس بات پر بطور خاص زور دیا ہے کہ عالمی پیمانے پر مشترکہ میکانزم اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کی جڑوں پر وار کیا جاسکے کیونکہ ہر آئے دن یہ بات واضح تر ہوتی جارہی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ یا براعظم اس خطرے سے محفوظ نظر نہیں آتا۔ آئے دن مختلف ممالک سے خودکش بمباریوں اور ہلاکت و تباہی کی خبریں ملتی رہتی ہیں اور یہ انسانی تہذیب کے لئے بہت بری خبر ہے۔ اقوام متحدہ کو تمام سیاسی مصلحتوں اور عارضی مفادات کی بھول بھلیوں سے بلند ہوکر اس مسئلہ پر غور کرنا ہوگا اور اس سے لڑنے کے لئے ایک جامع قسم کا لائحہ عمل کو ترتیب دینا ہوگا۔