پاکستان میں خاتون صحافیوں کے خلاف شرارت آمیز مہم

پاکستان میں صحافیوں اور دانشوروں پر ہمیشہ فوج اور حکومت کی یلغار ہوتی رہی ہے۔ صحافیوں کی زبان بند کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ۔ انہیں نہ صرف اذیتیں دی گئیں اور طرح طرح کی آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا بلکہ انہیں اپنے صحافتی فرائض اور ذمہ داریوں سے روکنے کے لئے متعدد نوعیت کے کالے قانون بھی وقتاً فوقتاً وضع کئے جاتے رہے  لیکن ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستانی صحافیوں نے ہر چیلنج کا مقابلہ کیا اور ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ اس وقت کہنے کو پاکستان میں جمہوریت ہے اور حکومت کے سربراہ پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان ہیں ۔ وہ جب اپوزیشن میں تھے تو بڑے بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے۔ بہت سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کے نعروں میں کشش نظر آتی تھی اور گزشتہ سال جب وہ اقتدار میں آئے تب بھی انہوں نے ‘‘نئے پاکستان’’ کا نعرہ دہرایا۔ لیکن ایک سال سے کم عرصے میں ہی لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے نعرے کتنے کھوکھلے تھے۔ دیگر معاملات کو تو چھوڑیئے، خود صحافیوں پر بھی اتنا دباؤ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ قدم قدم پر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ  اب بھی پاکستان پر براہ راست فوج ہی حکومت کررہی ہے۔ اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی پاداش میں صحافیوں پر نہ صرف روک لگائی جاتی ہے بلکہ نفسیاتی اور ذہنی سطح پر ان کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہےکہ خاتون صحافیوں کے خلاف آن لائن بھی بیہودہ تبصرے کئے جاتے ہیں اور بھونڈے اور گندے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لاہور کی ایک خاتون صحافی محمل سرفراز نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں خاتون صحافیوں کے ساتھ ہونے والی آن لائن بدسلوکیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ایک صحافی آسما شیرازی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال 13 جولائی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن سے سزا کاٹنے کےلئے واپس آرہے تھے۔ انٹرویو تو خیر سینسر شپ کی نذر ہوگیا اور نشر نہیں ہوسکا لیکن بات وہیں ختم نہیں ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے معتقدین  آن لائن آسما شیرازی کو بیہودہ تبصروں سے نوازنے لگے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس خاتون صحافی پر ذہنی اور نفسیاتی طور پر کیا اثر پڑا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ دن تک ٹوئٹر دیکھنے کا سلسلہ ہی بند کردیا۔

محمل سرفراز کے مطابق یہ واقعہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ گزشتہ ماہ ماروی سرمد سمیت ایسے کئی صحافیوں کو جنہوں نے حکومت  کی تنقید کی تھی، انہیں ٹوئٹر پر بھدی گالیاں دی گئیں۔ ان میں مبشر زیدی اور عمر چیما بھی شامل تھے۔ خاتون صحافی بطور خاص نشانہ بنتی ہیں۔ ٹوئیٹر پر جن خواتین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان میں 91 فیصد ایسی ہیں جنہیں ذاتی نوعیت کی گالیاں دی جاتی ہیں اور جنسی تبصرے کئے جاتے ہیں۔

ماروی سرمد جو صحافی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی ایک ایکٹی وسٹ بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ  روایتی انداز سے سوچنے والے لوگ اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو صرف گھر گرہستی سے سروکار رکھنا چاہیے۔ ان کا صحافت جیسے پیشے سے کیا واسطہ؟ یہی وجہ ہے کہ خاتون صحافیوں کے ساتھ اس طرح کی بدسلوکی کی جاتی ہے۔ محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ سب کچھ حکام کے علم میں ہے۔ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن تنقید قطعی برداشت نہیں کرتے۔ جب کوئی انصاف کے لئے آواز اٹھاتا ہے تو پورا سسٹم گویا مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جمہوری قدروں کو فروغ دینے کی ہر کوشش کو پاکستان میں سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور اہانت دین قانون کے نام پر سخت گیر قانون کا تحفظ کرنے کا نعرہ لگانے والے مذہبی حلقے پاکستان کی خاتون صحافیوں کے خلاف ہونے والے ناروا سلوک پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کرلیتےہیں؟ عمران خان سے بھی یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا یہی ان کے نئے پاکستان کا طرۂ امتیاز ہے؟