ایران کے حوالے سے پاکستان کا تذبذب

امریکہ اور ایران کے درمیان نیو کلیائی مسئلے پر بڑھتی تکرار نے خلیج فارس میں حالات کو بیحد کشیدہ کر دیا ہے۔خلیج کی اس صورتحال میں پاکستان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ خود کو جانبدار رکھتے ہوئے اپنے داخلی مفادات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مفادات کا تحفظ کرنا بھی ہے۔دراصل پاکستان کے لیے یہ کشیدگی اس لیے زیادہ باعث فکر ہے کہ اسے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سے اپنے خوشگوار اور دیرینہ سفارتی اور دوستانہ رشتوں کے تحفظ کا چیلنج درپیش ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور ایران کے تازہ تنازعہ میں سعودی عرب امریکی خیمے میں کھڑا ہے اور اس کا دباؤہے کہ امریکہ ایران میں ایئر اسٹرائک جیسی کوئی سخت کارروائی کرے ۔سعودی عرب کا الزام ہے کہ ایران نے ڈرون کے ذریعہ اس کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے اور اسے ایران سے اپنی سلامتی کا خطرہ ہے۔ظاہر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں جس طرح کے قریبی تعلقات ہیں اس کے پیش نظر سعودی عرب پاکستان کو اپنی طرف دیکھنا چاہتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ2015 میں جب سعودی عرب نے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی تو ایران پر فوجی تعاون کا دباؤ تھا لیکن پاکستان نے اس وقت سفارتی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے فوجی تعاون سے خود کو الگ رکھا تھااور یمن میں اپنی فوج بھیجنے سے منع کر دیا تھا۔البتہ یمن میں سعودی عرب کے مفادات کے تحفظ کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے قریبی رشتے ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی آبادی سعودی عرب سے پاکستان کے اچھے رشتوں کی طرفدار ہے۔کچھ عرصہ قبل جب سعودی شہزادہ بن سلمان پاکستان آئے تو انھوں نے 20 بلین کی مالی امدا دےکر پاکستانی معیشت کو سہارا دیا تھا۔ظاہر ہے ان حالات میں پاکستان کسی بھی صورت میں سعودی عرب کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔  دوسری طرف ایران بھی پاکستان کا اہم پڑوسی ہے اور اس سے پاکستان کے اقتصادی و تجارتی رشتے بیحد اہمیت کے حامل ہیں۔گوادر اور چاہ بہار بندر گاہ کی تجارتی اہمیت سے پاکستان بھی فائدہ ا ٹھا سکتا ہے ۔اسی طرح ایران تیل لائن پروجیکٹ کی منظوری بھی پاکستانی معیشت کے لیے سود مند ہو سکتی ہے۔

ایران سے رشتوں کا دوسرا پہلو انسداد دہشت گردی کے معاملے میں اس سے تعاون ہے۔دونوں ممالک کی تقریباً 950 کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔اس میں بلوچستان کا علاقہ بھی شامل ہے پاکستان اور ایران مل کر انسداد دہشت گردی کی سمت میں بہتر کام کر سکتے ہیں۔افغانستان میں بھی دونوں ممالک کا آپسی تعاون انسداد دہشت گردی میں مددگار ہو سکتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تہذیبی و ثقافتی تعاون بڑھانے کے بھی امکانات ہیں۔پاکستان کی شیعہ آبادی بھی مذہبی و ثقافتی بنیادوں پر ایران سے اچھے رشتوں کے حق میں ہے۔پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ سمجھائے کہ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی خوشگوار تعلقات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہیں۔

امریکہ سے بھی پاکستان کے رشتے کافی عرصے سے دہشت گردی کے معاملے پر کشیدہ ہیں۔پاکستان کے سامنے ان رشتوں کو معمول پر لانے کا بھی چیلنج ہے۔موجودہ حالات میں یہ چیلنج اور بھی بڑھ گیا ہے۔یہ اس لیے بھی کہ چین بھی اس وقت امریکہ کے حریفوں میں ہے اور اس کا جھکاؤ ایران کی طرف ہے۔امریکہ ایران کے تنازعہ میں بھی چین سعودی عرب یا امریکہ سے الگ ایران کے ساتھ کھڑا ہے ۔ان تمام ممالک سے پاکستان کو اپنے رشتے اس طرح سے بنائے رکھنے کا سخت چیلنج درپیش ہے کہ اس کے اپنے داخلی اور خارجہ مفادات متاثر نہ ہوں۔حالانکہ جہاں تک ایران اور امریکہ کا تعلق ہے تو دونوں ممالک بظاہر کچھ بھی کہیں لیکن یہ احساس شاید دونوں کو ہے کہ جنگ کی صورت میں کسی کا بھی فائدہ نہیں ہے۔صدر ٹرمپ نے تازہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد بھی یہ بات دوہرائی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ۔یہ الگ بات کہ ٹرمپ کے دھمکی بھرے بیانات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ایران بھی جنگ کی حد تک نہیں جانا چاہتا۔ اس کے لہجے میں بھی جارحانہ پن نظر آتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود دونوں ممالک کے کچھ سفارتکار کشیدگی کم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔یوروپی یونین اور دیگر ممالک بھی امریکہ وایران ٹکراؤ کو ٹالنا چاہتے ہیں۔یہ الگ بات کہ امریکہ کے علاقائی حلیف سعودی عرب اور اسرائیل کے موقف میں نسبتاً زیادہ شدت نظر آتی ہے۔پاکستان کو ان حالات میں ہی اپنے لیے راستہ نکالنا ہے۔یہ راستہ نکالنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایران کو سعودی عرب یا سعودی عرب کو ایران کے سبب نظر انداز کرنے سے دہشت گردی سے لڑنا پاکستان کے لیے نا ممکن ہوگا۔یہی سبب ہے کہ پاکستان نے موجودہ حالات میں خود کو غیر جانبدار رکھنے کا اشارہ دیا ہے،اور امریکہ کو بھی موجودہ حالات میں تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔