ہندوستان پرعالمی برادری کا اعتماد

امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے ہندوستان کے تین روزہ دورے کے دوران، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے علاوہ متعدد سیاسی رہنماؤں او رتجارت سے وابستہ اہم شخصیات سے ملاقات کے بعد،ایک قومی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا  کہ صرف امریکہ ہی ہندوستان کے لئے اہم نہیں ہے بلکہ ہندوستان بھی امریکہ کے لئے یکساں طورپر اہمیت کا حامل ہے۔اپنے دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ہمارے درمیان بعض امور پر اختلافات ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ہم اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں لیکن ہم ان اختلافات کو دو ر کرنے کے لئے مل کر کام کریں گے کیوں کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے لئے بے پناہ مواقع ہیں اور ہمیں ان مواقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ ہم دو بڑی معیشت کے طور پر ترقی کرسکتے ہیں اور دنیا کے دو مختلف حصوں میں ایک دوسرے کے اہم پارٹنر بن سکتے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاذ پر جس طرح کی کشیدگی پائی جاتی ہے اس کے مدنظر بعض تجزیہ کار اسے دونوں ملکوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک رشتوں کے لئے باعث تشویش قرار دے رہے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مائک پومیو نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ گو دونوں ملکوں کے مابین تجارتی معاملے پر اختلافات رہے ہیں لیکن یہ اختلافات دوستانہ دائرے میں آتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان تجارتی رکاوٹوں کو دور کرلیا جائے گا اور مستقبل میں پیدا ہونے والے کسی بھی تجارتی تنازعہ کو بھی آسانی سے حل کرلیا جائے گا۔ہم کہہ سکتے ہیں ہندوستان اور امریکہ متعدد اہم امور پر ایک دوسرے کے حامی اور معاون ہیں۔ مثلاً دونوں ممالک دہشت گردی کو روکنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔اسی طرح امریکی سینیٹ میں دو ہفتے قبل ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے منظور ہوجانے کے بعد ہندوستان بھی ناٹو کا رکن بن جائے گا۔نائن الیون واقعہ کے بعد ناٹو نے اپنے ضابطے میں اجتماعی سلامتی کے دفعات میں جو تبدیلی کی ہے اس کی رو سے ناٹو کے کسی رکن ملک پر کیا گیا حملہ کو پورے ناٹو پر کیا گیا حملہ قرا ردیا گیا ہے۔ناٹو کی فوج کے علاوہ امریکہ کی قیادت میں قائم 30ملکی گلوبل کاونٹر ٹیرارزم فورم میں ہندوستان بھی ایک رکن ہے۔حالیہ برسوں میں ہندوستان اورامریکہ کے درمیان باہمی تعلقات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے دور میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اچھے رشتوں کی بنیاد رکھی گئی اور 2001کے بعد دونوں ممالک اسٹریٹیجک پارٹنر بن گئے۔2004میں اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے اگلے مرحلے پر معاہدہ ہوا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان سول نیوکلیائی تعاون‘ میزائل ڈیفنس تعلقات سول اسپیس ٹکنالوجی میں تعاون اور اعلی ٹکنالوجی کے شعبے میں باہمی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا  2008میں امریکہ نے ہندوستان کوفطر ی شریک کار کا درجہ‘ جب کہ 2016میں گلوبل اسٹریٹیجک پارٹنر اور میجر ڈیفنس پارٹنر کا درجہ دیا۔ 2018میں پہلی ٹو پلس ٹو2+2)) میٹنگ کے تحت کوم کاسا معاہدہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ بروقت فوجی اطلاع دینے سے متعلق ہے۔ا س سے ہندوستان کوبحری نگرانی میں بھی مدد ملے گی۔ اگرکوئی ملک ان دونوں ملکوں کے لئے کسی حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو اس کی بھی اطلا ع اب دونوں کو منٹو ں میں مل جائے گی۔گویا دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مفادات کا از حد خیال ہے اور غالباً مائک پومپیو نے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔لیکن یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر امریکہ اچانک اقتصادی محاذ پر اتناسخت کیوں ہوگیا۔ دراصل ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اشیاء اور خدمات کی باہمی تجارت میں تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں ہے۔ یعنی امریکہ میں ہندوستانی برآمدات زیادہ ہیں اور ہندوستانی بازاروں میں امریکی اشیاء کی درآمدات کم ہیں۔ یہ عدم توازن ہی تجارتی تنازعہ کی بنیاد ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ جاپان کے اوساکا میں جی20چوٹی کانفرنس کے دوران جب وزیر اعظم نریند رمودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے توتجارت کے محاذ پر پیدا کشیدگی کا کوئی نہ کوئی مناسب او ردونوں کے لئے قابل قبول حل نکل آئے گا۔کیوں کہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کے الفاظ میں صرف امریکہ ہی ہندوستان کے لئے اہم نہیں ہے بلکہ ہندوستان بھی امریکہ کے لئے یکساں طورپر اہمیت کا حامل ہے۔ اوردونوں ملک دو بڑی معیشت کے طور پر ترقی کرسکتے ہیں اور دنیا کے دو مختلف حصوں میں ایک دوسرے کے اہم پارٹنر بن سکتے ہیں۔