پاکستان میں ہر طرف سنسر شپ، انتقامی کارروائی اور خوف کے سائے 

پاکستان میں سیاسی سطح پر اس وقت اسی بات کا چرچہ ہے کہ اس وقت کہنے کو ایک منتخب حکومت ہے اور فوج بظاہر اقتدار سے دور ہے لیکن سیاسی اور سماجی سطح پر صورتحال ابتر ہوگئی ہے، ہر طرف خوف اور دہشت کا کچھ ایسا ماحول ہے کہ فوجی آمروں کے زمانے میں بھی اقتدار کا اتنا غلط استعمال ہوتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اگر پریس اور میڈیا کے حوالے سے سنسر شپ کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ میڈیا گھرانوں اور اخبار کے مالکان نے خود ہی سے اپنے اوپر سنسر شپ لاد لی ہے تاکہ کسی مرحلے میں انہیں کوئی خطرہ نہ مول لینا پڑے ۔ منجھے ہوئے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی اس صورتحال پر یہ رائے ہے کہ خوف کی یہ انتہا ہے کہ بعض میڈیا گھرانوں نے گزشتہ کم وبیش ایک سال کے عرصے سے متعلقہ حکام کی کسی طرح کی ہدایت کے بغیر ہی اپنے اوپر یہ پابندی عائد کررکھی ہے جس کا پورا پورا فائدہ ایسٹیبلشمنٹ اٹھارہا ہے۔ حالانکہ یہ صحافتی دیانت داری کے خلاف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیویلین حکومت اور فوجی ٹولے کی ملی بھگت سے پورے پاکستان پر خوف کا ایسا ماحول طاری کردیا گیا ہے تاکہ زباں بندی کو لوگ معمولات زندگی میں شامل کرلیں اور اس کے لئے گزشتہ ہفتہ کی وہ مثال دی جارہی ہے جس میں سابق صدر پاکستان آصف زرداری کے انٹرویو کو چند منٹ بعد ہی بغیر کسی وضاحت یا اعلان کے نشر ہونے سے روک دیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں ، اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی لگاتار جاری ہے۔ سابق وزیراعظم تو جیل میں بند ہیں ہی، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے متعدد لیڈر یکے بعد دیگرے بدعنوانی یا کسی دوسرے عنوان سے گرفتار کئے جارہے ہیں۔ زرداری کے انٹرویو کا جو واقعہ گزشتہ ہفتہ کی ایک رات کو پیش آیا تھا۔ اسی روز مسلم لیگ نواز کے ایک ممتاز اور بااثر سیاست داں راناثناء اللہ  کو بھاری مقدار میں نشیلی اشیاء اپنی کار میں لے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ تجزیہ کار اور سیاسی شخصیتیں اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ رانا ثناء اللہ جیسا منجھا ہوا سیاست داں جو یہ بات محسوس بھی کررہا تھا کہ اسے کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے وہ اتنی بڑی مقدار میں نشیلے مادے رکھ کر اپنی گاڑی میں گھوم رہا تھا؟ بہرحال نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور صوبہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھی گزشتہ سال ہی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں نے یہ کہنا بھی شروع کردیا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ بہت سے ایسے افراد جو اس وقت حکومت اور ایسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ افراد کی فہرست میں ہیں وہ اگلے سال یا کچھ دن بعد معمولی سی انحراف کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرلئے جائیں۔ پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار رضارومی نے ایک اور بات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جس کا تعلق صحافیوں اورمیڈیا گھرانوں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافی اور میڈیا گروپ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر صف بندی کا شکار ہوگئے ہیں جو دیانت دارانہ اور آزاد صحافت کے لئے سم قاتل ہے۔ اس جانب انہیں سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے اور انہیں اس طور پر پروگرام اور رپورٹیں ترتیب دینی چاہئے جس سے سیاسی صف بندی کی صورتحال نہ پیدا ہو۔ اگر اس معاملے پر باریکی اور سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی تو ظاہر ہے اس کا فائدہ خود ایسٹیبلشمنٹ اٹھائے گا جو پہلے ہی خوف اور دہشت کا ماحول قائم کرنے کے جتن کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا لوگ فوجی حکمرانوں اور مارشل لا کے زمانے کی صورتحال سے موازنہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ فوجی آمروں کے زمانے میں سب کچھ فوجی جنرلوں کے حکم پر ہوتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ فیصلے تو فوجی جنرلوں کے ہی ہوتے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کا کام عمران خان کی حکومت کرتی ہے۔ اگر مرحوم ابن انشا کے ایک مضمون سے کچھ الفاظ مستعار لئے جائیں تو یہی کہا جائے گا کہ جس طرح دودھ اور پانی کی آمیزش سے گوالوں کا کاروبار آگے بڑھتا ہے  اسی طرح فوج اور عمران خان کی کابینہ کے بھر پور اشتراک وتعاون سے حکومت کا کاروبار بھی خوب چل رہا ہے۔