ممنوعہ گروپ کے ٹریننگ کیمپ افغانستان میں

معتبر خفیہ اطلاعات کے مطابق 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہونے والے جیش محمد کے حملے کے بعد ہندوستانی فضائیہ کے میراج  طیاروں نے پاکستان میں واقع جیش محمد کے بالاکوٹ ٹریننگ کیمپ پر جو اسٹرائیک کی تھی، اس کے بعد جیش محمد اور لشکرطیبہ جیسے ممنوعہ گروپوں نے ایک نئی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ان کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستانی ایجنسیاں بھی ان کے ساتھ تعاون کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ ان گروپوں کی موجودگی افغانستان میں پہلے بھی رہی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ مل کر اتحادی فوجوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ بہرحال رپورٹ کے مطابق افغانستان کے جن علاقوں میں یہ اپنے کیمپ منتقل کررہے ہیں ان میں کُنار ، ننگر ہار، نورستان اور قندھار جیسے صوبے شامل ہیں جہاں طالبان کے اثرات بہت زیادہ  ہیں۔ یاد رہے کہ پلوامہ میں جیش محمد کے حملے میں سی آر پی ایف کے 40 سے زیادہ جوان شہید ہوئے تھے جس کے بعد ہندوستان کی طرف سے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی گئی تھی اور پاکستان میں گھس کر ٹریننگ کیمپوں پر اسٹرائیک کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جیش محمد اور لشکرطیبہ ماضی میں بھی طالبان کے حامی رہے ہیں اور انہوں نے اس کے ساتھ اشتراک بھی کیا تھا۔ موجودہ پلان کے مطابق ان دونوں گروپوں نے افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور ان کے اتحادی دوسرے گروپوں کے ساتھ ساز باز کرکے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے ٹریننگ کیمپ قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے ۔ فائننشیل ایکشن ٹاسک فورس یعنی (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے ملنے والی سخت وارننگ کے بعد نہ صرف پاکستانی ایجنسیاں بلکہ ممنوعہ گروپ بھی کافی محتاط ہوگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان سے ان کے اڈے اور کیمپ کہیں اور منتقل ہوجائیں تاکہ وہ ایف اے ٹی ایف کے عتاب سے بھی بچ سکیں۔ جولائی کے اوائل میں عمران حکومت کی طرف سے جیش محمد اور لشکرطیبہ نیز ان کے بعض نام نہاد فلاحی اداروں اور ٹرسٹ کے خلاف کچھ کارروائی کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن ہندوستان کو اس بات کا قطعی یقین نہیں ہے کہ یہ کارروائیاں واقعی کسی سنجیدہ کوشش کا اشارہ کرتی ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ ایک طرف لشکر طیبہ اور جیش کے خلاف کارروائیوں کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے اور دوسری طرف کابل ، قندھار نیز دوسرے علاقوں میں طالبان سے مل کر پاکستانی گروپ ہندوستانی سفارت خانے اورقونصل خانے پر حملے کرنے کا پروگرام بھی بنارہے ہیں۔ افغانستان میں سرکاری دفاتر ،سیکوریٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین بھی آئے دن طالبان کے نشانے پر رہتے ہیں لیکن اب ان سب کے اشتراک سے نہ صرف افغانستان بلکہ ہندوستانی مفادات کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش تیز تر کرنے کی تیاری ہے۔ ان سب باتوں پر افغانستان کا خفیہ محکمہ بھی کڑی نظر رکھ رہا ہے۔ افغانستان کے خفیہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں جیش محمد کے انتہاپسندوں کی موجودگی افغانستان میں بڑے پیمانے پر محسوس کی گئی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل افغان نیشنل سیکوریٹی فورسز نے جلال آباد سے صادق اکبر اور عطاء اللہ نام کے دو دہشت گردگرفتار کئے تھے جن کا تعلق جیش محمد سے ہے۔ یہ دونوں کابل کی طرف جاتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور ان کی ٹریننگ بہاولپور اور بالاکوٹ کے ٹریننگ کیمپوں میں ہوئی تھی۔ انہوں نے پکڑے جانے پر یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کے ذمہ یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ کابل اور قندھار میں ہندوستانی مفادات پر کڑی نظر رکھیں۔ ان سرگرمیوں کے علاوہ لشکرطیبہ نے اپنے نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کے لئے ننگر ہار ، نورستان ، کُنار اور ہیلمند صوبوں میں نئے مراکز بھی کھولے ہیں۔ انہوں نے اپنے بہت سے کارکنوں کو پشاور سے کابل منتقل کردیا ہے جہاں وہ طالبان کی مدد سے تخریبی سرگرمیوں کو انجام دیں گے اور بیک وقت افغانستان اور ہندوستان، دونوں کے مفادات کو نقصان پہنچائیں گے۔ 

حال ہی میں امریکی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ لشکرطیبہ اپنے 300 سے زیادہ جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجوں پر حملہ کرنے کا پلان بنارہا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی موصول ہوئی ہے کہ لشکرطیبہ طالبان اور نام نہاد اسلامک اسٹیٹ آف خیبرپختونخوا کے مابین صلح صفائی کرانے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ غرضیکہ بالاکوٹ پر ہونےوالی اسٹرائیک کے بعد پاکستان کے متعدد گروپ اپنی سرگرمیوں کا خاص مرکز پاکستان کی بجائے افغانستان منتقل کرنے کے منصوبے پر بڑی سرگرمی سے عمل کررہے ہیں۔