پاکستانی میڈیا پرسنسرشپ کا قہر

پاکستان میں ویسے تو گذشتہ سال کے عام انتخابات کے وقت ہی میڈیا پر بالواسطہ نہ صرف سنسر شپ عائد کی گئی تھی بلکہ فوج اور ایجنسیوں کی طرف سے صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا بھی جا رہا تھا،ابھی تو عمران خان کی حکومت بر سر اقتدار بھی نہیں آئی تھی لیکن فوجی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے جو بہت سارے ہتھکنڈے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی پارٹی کی حکومت کے خلاف آزمائے جاسکتے تھے انہیں وسعت دے کر عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی مہم میں تبدیل کر دیا گیا ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس زمانے میں شدید ناراضگی اور احتجاج درج کرایا تھا اور بین الاقوامی مشاہدین نے بھی سوال اٹھائے تھے لیکن وہ سلسلہ بھی وہیں نہیں رکا۔ میڈیا والوں پر خوف کا ایسا ماحول مسلط کر دیا گیا کہ بعض اخبار اور چینلوں کے مالکان نے خود ہی اصل حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو کورکرنے سے احتراز کرنا شروع کر دیا۔ لیکن دیانت دار اور فرض شناس صحافی اپنے پیشے کے تئیں بہت زیادہ غفلت نہیں برت سکتے ۔ بالآخر پاکستان کے آزاد بیباک اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں وابستگی رکھنے والے صحافیوں نے میڈیا پر چھائے اس تاریک ماحول کے خلاف کھل کر آواز اٹھانا شروع کیا۔یہ وہ صحافی ہیں جن کی دیانت داری کبھی مشکوک نہیں رہی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہرحکومت کے دوران ایمانداری سے اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں، خواہ وہ پی پی پی کی حکومت رہی ہو یا مسلم لیگ نواز کی یا براہ راست کسی فوجی آمر کی۔

چنانچہ حالیہ ہفتوں میں بد ترین سنسر شپ کی جو مثالیں سامنے آئیں ان کا ذکر پاکستان کے گلی کوچوں میں ہر طرف ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی کے لیڈر آصف زرداری کے انٹر ویو کو جیو ٹی وی پر نشر ہونے سے روک دیا گیا ۔ اس واقعہ کی گونج ابھی سنائی دے ہی رہی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی لیڈر مریم نواز کے انٹر ویو اور پریس کا نفرنس پر عتاب نازل ہوا ۔ انٹر ویو اور پریس کانفرنس میں کچھ ایسے انکشافات کئے گئے تھے جو موجودہ حکومت اور اس حکومت کی پشت پناہی کرنے والی ایجنسیوں کے بعض گھناؤنے کارناموں کا پردہ فاش کر رہے تھے اور اسی بات سے خوفزدہ ہو کر حکومت نے میڈیا کو خوفزدہ کرنا شروع کیا۔مثلاً مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو بھی دکھایا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج ارشد ملک یہ اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انہیں بلیک میل کر کے اس بات کے لئے مجبور کیا گیا تھا کہ وہ  سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنائیں۔ بعد ازاں اس جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہٹا دیا گیا۔ مریم نواز کا انٹر ویو کرنے والے صحافی ندیم ملک کا سوال ہے کہ کیا ایسے حالات میں بھی ایک جج کے بارے میں اصل حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کرنا صحافی کی ذمہ داری نہیں ہوتی؟ندیم ملک نے یہ بھی کہا ہے کہ انٹر ویو کا نشریہ تو روک دیا گیا لیکن کیا کسی صحافی کی آزادی پر قدغن لگانا کسی بھی حکومت کا شیوہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے وہ صحافیوں کی آواز کو دبا سکتی ہے؟ مسٹر ندیم نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں قطعی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے خواہ کچھ بھی ہو۔

نجم سیٹھی پاکستان کے ممتاز اور منجھے ہوئے صحافی ہی نہیں بلکہ انہوں نے بعض دوسرے شعبوں میں بھی پاکستان کی کافی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی صحافتی دیانت داری پر شاید ہی کوئی انگلی اٹھا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی مریم نواز کا انٹر ویو کرنا چاہ رہے تھے لیکن وہ انٹر ویو ریکارڈ بھی نہیں کیا جا سکا۔ ان کے مطابق ان کے چینل 24 ایچ ڈی پر حکومت اور ریاست کے نامعلوم ذرائع نے پہلے ہی سے پابندی لگا رکھی تھی اور پورے ملک کے کیبل آپریٹروں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ ایسے پروگرام نشر نہ ہونے دیں جن میں مریم نواز کی ریلیوں کو ضرورت سے زیادہ کوریج دی جا رہی ہے۔ بہر حال ان کے چینل کی نشریات کا سلسلہ کئی روز بعد اس وقت شروع ہوا جب پورے ملک میں میڈیا پر لگنے والی پابندیوں کی بڑے پیمانے پر مذمت ہوئی۔ بہر حال سیٹھی صاحب کے مطابق اس کے بعد انہوں نے مریم نواز کا انٹر ویو شیڈیول کیا لیکن آخری لمحوں پر وہ انٹر ویو بھی روک دیا گیا۔شاید چینل 24 کی انتظامیہ کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انٹر ویو نشر ہوا تو اس کی نشریات پر پورے مہینے کے لئے پابندی لگ جائے گی ۔ وزیر اعظم عمران خان  سے ایک ہی سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ان کا نیا پاکستان اسی کو جمہوریت تصور کرتا ہے؟