پاکستان کو امریکی امداد کی بحالی

عمران خان کے دورۂ امریکہ کے اغراض ومقاصد کا قیاس تو پہلے ہی سے کیا جارہا تھا لیکن امریکہ کی جانب سے پاکستان کے6F-1طیاروں کے ٹکنکل سپورٹ کے نام پر امداد کی بحالی کے اعلان کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ صدر ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق پالیسی نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ گزشتہ سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے تعلق سے انتہائی سخت موقف اختیار کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر امریکہ سے کروڑوں ڈالر کی خطیر رقم حاصل کی لیکن اس کے عوض اس نے امریکہ کو جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہ دیا۔ اس سخت بیان کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد بھی معطل کردی تھی۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا تھا جب پاکستان پہلے ہی سے شدید مالی بحران کا شکار تھا۔ معیشت بری طرح لڑکھڑا رہی تھی اور توازنِ ادائیگی کی صورت حال انتہائی بحرانی دور سے گزر رہی تھی۔ لیکن جیسا کہ صدر ٹرمپ کے حوالے سے عالمی برادری کے مشاہدے میں ایک بات آئی ہے کہ وہ نہ جانے کب اپنے پرانے موقف کے سلسلے میں یوٹرن لے لیں اور کب کیسا فیصلہ کر بیٹھیں، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سو افغانستان سے متعلق بھی انہوں نے پرانے موقف کو خیرباد کہہ کے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں جلد ازجلد اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لینی چاہئیں۔ اس فیصلے کے کیا مضمرات ہوں گے، اس پر شاید انہوں نے کچھ زیادہ غور نہیں کیا اور طالبان کی اس شرط کو مان لیا کہ اس سے امریکہ براہ راست بات چیت کرے۔ اس سے قبل امریکہ کا یہ اصرار تھا کہ طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کرنی چاہئے لیکن اچانک یہ پتہ چلا کہ ڈرامائی طور پر امریکہ نے طالبان سے امن مذاکرات کرنے کے لئے زلمے خلیل زاد کو اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کردیا اور دوحہ میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کا معاملہ کسی نہ کسی سطح پر پاکستان سے بھی جڑ جاتا ہے اور اس حوالے سے امریکہ کو بڑی حد تک پاکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی کا سیاق بدلنے کے بعد پاکستان سے بھی بات چیت کی راہ ہموار ہوگئی۔ گویا عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دو پہلو بڑے نمایاں طور پر سامنے آئے۔ ایک تو یہ کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں نسبتاً بہتری کے امکانات روشن ہوئے ، دوسرے یہ کہ امریکی امداد کی بحالی کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد مالی بحران سے نمٹنے میں عمران حکومت کو اگر بہت زیادہ نہیں تو فوری طور پر تھوڑی راحت ضرور ملے گی۔ چنانچہ عمران خان کے دورۂ امریکہ کے ایک ہفتہ کے اندر ہی اندر امریکہ کے محکمۂ دفاع نے 125ملین ڈالر کے بقدر رقم پاکستانی F-16کے ٹکنکل اور Logistic Supportکے طور پر جاری کرنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ جمعہ کو پنٹاگن کی طرف سے یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی درخواست پر یہ امداد بحال کی جارہی ہے۔ امریکہ کے بعض اعلیٰ افسران نے یہ وضاحت کی ہےکہ F-16سپورٹ پروگرام کی بحالی کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو فوجی امداد بحال کرنے جارہی ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ جنوری 2018میں صدر ٹرمپ نے جو سیکورٹی امداد معطل کرنے کا اعلان کیا تھا ، اس میں کوئی تبدیلی واقع ہو۔ لیکن بعض جانکار حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ میں ایسی مفاہمت ہوئی ہے کہ اگر افغانستان سے امریکی فوجوں کی بہتر اور محفوظ ڈھنگ سے واپسی کو یقینی بنانے میں پاکستان نےامریکہ کی خاطر خواہ مدد کی تو وہ پاکستان کے لئے 1.3ملین ڈالر سالانہ کی وہ امداد بحال کردیں گے، جس کاسمجھوتہ اوبامہ انتظامیہ نے کیا تھا۔ بہر حال صورت حال جو بھی ہویہ فیصلہ اوریہ باتیں پاکستان اور امریکہ سے تعلق رکھتی ہیں اور حقیقتاً کیا ہونے والا ہے یہ تو متعلقہ فریق ہی جانیں، لیکن جہاں تک پاکستان کی بنیادی روِش کا سوال ہے تو ہندوستان اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوا ہے کہ دہشت گردی کے تعلق سے پاکستان کوئی مثبت رویہ اختیار کرنے والا ہے۔ امریکہ کو اوبامہ انتظامیہ کے زمانے میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ پاکستان نے دوہرا رول ادا کیاتھا ۔ٹرمپ انتظامیہ نے تو کھل کر بہت کچھ کہہ دیا تھا ،لیکن اب نئی صورت حال کے پس منظر میں کیا ہونے والا ہے ، اس کے بارے میں صرف قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔