پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بحالی خطے کے حق میں نہیں

دہشت گردی کےتعلق سے پاکستان کی فطرت سے پوری دنیا واقف ہے۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ جو ملک دہشت گردوں کی پرورش وپرداخت کرتا ہے اسے سبھی مالی اور تکنیکی وسائل سے محروم کردیا جائے ، لیکن صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کے لیے 125 ملین ڈالر کی امداد کو منظوری دی ہےجس کا مقصد امریکہ کے ذریعہ فراہم کردہ F-16 جنگی طیاروں کی مرمت اور ان کی دیکھ ریکھ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے صدر کا عہدہ سنبھالا ہے امریکہ کی خارجہ پالیسی غیر یقینی کے دور سے گزر رہی ہے۔ امریکی صدر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد خود یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کےذریعہ فراہم کی گئی اربوں ڈالر کی مالی امداد کا غلط استعمال کیا ہے۔ جو رقم دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے استعمال ہونی تھی وہ ان کی مالی اعانت پر صرف ہوئی۔ اس طرح سے پاکستان نے بقول ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو دھوکہ دیا اور اسے بے وقوف بنایا۔ پاکستان کے تعلق سے ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ پالیسی ان کے سابقہ بیان سے میل نہیں کھاتی ہے۔ امریکہ کے موقف میں تبدیلی حیران کن ہے کیوں کہ اس عرصہ میں پاکستان نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے جس کا انعام اسے دیا جارہا ہے۔ سوال صرف F-16  جنگی طیاروں کو تکنیک فراہم کرنے کا نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لیے آئندہ مالی امداد کا دروازہ کھولنے کا ہے۔ہندوستان نے پاکستان کو دی جانے والی امریکی فوجی مدد کے تعلق سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کردیا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد پاکستان نے ہندوستان کے خلاف F-16 جنگی طیاروں کا استعمال کیاتھا، جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دیے گئے F-16 جنگی طیارے کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوہرا معیار اختیار کرنے سے اس لڑائی کے کمزور پڑنے یا اس کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی چاہے عراق، شام یا افغانستان میں ہو یا دنیا کے کسی اور خطے میں سب کو یکساں نظریہ سے دیکھنا ہوگا۔ ابھی تک اس لڑائی میں لاکھوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ یہ لڑائی جس مقام پر ہے اسے آگے لے جانے کی ضرورت ہے پیچھے قدم کھینچنے سے جہاں امن پسند لوگوں میں مایوسی پیدا ہوگی وہیں امن دشمنوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ دہشت گردی کے تعلق سے پوری دنیا کا مفاد یکساں ہونا چاہیے۔ ایک خطہ کا دہشت گرد دوسرے خطہ کے دہشت گرد سے الگ نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردوں میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گردوں میں کوئی اچھا یا برا نہیں ہوتا، وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ امریکہ کو اگر اپنے مفادات کی فکر ہے تو اسے ہندوستان سمیت دوسرے ممالک کے مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہندوستان نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بہت قربانیاں دی ہیں اور اسے کافی جانی ومالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ دہشت گردی کے قصور وار ایک ملک کو جب مالی امداد سے نوازا جائے گا تو تشویش لازمی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے تعلق سے جو کوششیں ہورہی ہیں وہ لائق ستائش ہیں اس لیے کہ وہاں کے عوام امن چاہتے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، وہ بھی دیگر ملکوں کے عوام کی طرح پرسکون زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ کی افغانستان سے نکل جانے کی جلد بازی سے ایک بار پھر اس ملک کے شورش پسندوں کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے امریکہ کویقینی بنانا ہوگا کہ ابھی تک وہاں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ رائیگاں نہ چلی جائے۔ پاکستان نے امریکہ کو ہرقدم پر دھوکہ دیا ہے۔ اسامہ بن لادن کے تعلق سے اس نے ہمیشہ دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ اس نے اپنی سرزمین  پر دہشت گردوں کو پناہ دی جنہوں نے نہ صرف ہندوستان میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا بلکہ افغانستان میں بھی امریکی مفادات اور ہندوستان کے تعمیری کاموں کو نقصان پہنچایا۔ اب جب کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے ایک بار پھر پاکستان کی یاد آئی ہے۔ امریکہ محسوس کرتا ہے کہ فوجی انخلا کے لیے پاکستان کا ساتھ ناگزیر ہے، لیکن اگر عالمی برادری یہ عزم کرلے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر وہ اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی تو یہ عمل اس قدر ناممکن بھی نہیں ۔ امریکہ کو اس خطہ میں کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے سبھی کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ جس طرح سے امریکہ کے لیے اپنے مفادات عزیز ہیں اسی طرح سے دوسرے ملکوں کے مفادات بھی ہیں۔ ایران کے تعلق سے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح سے یکطرفہ کارروائی کی ہے۔ اس نے ہندوستان سمیت بہت سے ملکوں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اس نے ایران سے تیل درآمد کرنے پر پابندی لگادی ہے اور وہاں کے وزیر خارجہ جواد ظریف پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں، لیکن یوروپی یونین نے امریکہ کے اس قدم پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کو اگر دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کو انتشار سے بچانا ہے تو اسے ایک مستحکم اور دیرپاخارجہ پالیسی وضع کرنی ہوگی۔